Ghar Se Bahir Bachpan
گھر سے باہر بچپن

بچپن کی زندگی انسان کی سب سے خوبصورت کہانی ہوتی ہے۔ اس کہانی میں انسان کو پیار، توجہ اور اعتماد ملنا سب سے ضروری ہے۔ گھر سے باہر رہنے پر بچہ سیکھتا تو بہت کچھ ہے اس کو دنیا داری کی سمجھ اتی ہے۔ مگر کیا تمام بچے گھر سے باہر رہ کر اچھی چیزیں ہی سیکھتے ہیں؟ نہیں کچھ بچے جو گھر سے باہر بچپن گزارتے ہیں وہ بہت بری چیزیں بھی سیکھتے ہیں۔
جیسا کہ چوری کرنا گن پوائنٹ پر کسی کو لوٹنا گالی گلوچ کرنا جوا کھیلنا اور نشے جیسی بری چیزوں میں مبتلا ہونا گھر سے باہر بچپن انسان کو بنانے اور بگاڑنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر آپ کا بچہ گھر سے باہر بچپن گزار رہا ہے تو اس پر نظر ضرور رکھیں کہ وہ کن لوگوں کے ساتھ اٹھ رہا ہے کن لوگوں کے ساتھ بیٹھتا ہے۔ اگر کوئی بچی گھر سے باہر بچپن گزارتی ہے تو وہ بھی بہت کچھ فیس کرتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے گھروں میں رواج ہے کہ ہم بچے کو نانی کے گھر یا دادی کے گھر دو دو تین تین سال کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ یہ چیزیں غلط ہے نانا یا نانی کے گھر چھوڑنا، لیکن کیا آپ جانتے ہیں اس سارے وقت میں بچے کو سب سے زیادہ ضرورت اپنے والدین کی ہوتی ہے جو تربیت والدین کر سکتے ہیں وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ کسی کو وہ احساس نہیں ہوگا جو آپ کو ہے۔
اگر ہمارے گھر کا ماحول اچھا نہیں تو ہم سوچتے ہیں نانی کے گھر میں یا دادا دادی کے گھر میں اسے وہ ماحول ملے گا جو ہم نہیں دے پا رہے۔ ہو سکتا ہے اسے وہ ماحول ملے اسے پیار بھی ملے اسے توجہ بھی ملے لیکن اسے تربیت نہیں ملے گی۔ کیوں کیونکہ نانا نانی دادا دادی پیار میں بچوں کو بگاڑ دیتے ہیں وہ اس قدر پیار کرتے ہیں کہ انہیں سمجھ نہیں اتا کہ بچے کی تربیت کے لیے سختی بھی ضروری ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ اپنی بچیوں کو اپنی بہن یا بھائیوں کے گھر چھوڑ دیتے ہیں یہ سوچ کر کہ وہ ہم سے زیادہ اس کا خیال رکھیں گے۔ لیکن کیا وہ اپنی اولاد سے بڑھ کر اسے رکھیں گے بہت کم ہوں گے سو میں سے کوئی 20 فیصد ایسے لوگ ہوں گے جو آپ کے بچوں کو اپنے بچوں جیسا پیار کریں گے اور اس کی تربیت کریں گے۔
ہم یہ سوچ کر بچوں کو گھر سے دور بھیج دیتے ہیں کہ اسے گھر سے بہتر ماحول ملے گا لیکن کیا آپ جانتے ہیں؟ گھر سے باہر بچپن نہ صرف بچوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے بلکہ اس سے والدین کو بھی بہت سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ ان کا بچہ ان سے بات نہیں کر پاتا ان سے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر پاتا ان سے کچھ مانگتا نہیں ان سے دور رہتا ہے ہر وقت ان پہ غصہ کرتا رہتا ہے یا والدین کو سمجھ نہیں پاتا وہ والدین کو ان ساری تکلیفوں کا قصوروار مانتا ہے جو اس نے گھر سے دور رہ کر فیس کی۔ گھر سے باہر رہ کر بچوں کو بہت سے نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض بچے تو پریشانی یا ڈر کا شکار ہو جاتے ہیں ان کی شخصیت پر بہت برا اثر پڑتا ہے سماجی تعلقات اور خود اعتمادی میں کمی آسکتی ہے۔
والدین اور بہن بھائیوں کے تعلقات میں فاصلہ اور جذباتی رشتہ کمزور ہو جاتا ہے۔ جو وقت بچے کو اعتماد دینے کا تھا اس وقت اس سے اعتماد چھینا جا رہا ہوتا ہے جو وقت بچے کو ابھرنے کے لیے ملنا چاہیے اس وقت بچے کو دبایا جا رہا ہوتا ہے۔ اپنی بچیوں اور بچوں کو کسی رشتے دار کے حوالے نہ کریں وہ آپ کی ذمہ داری ہے اپنی ذمہ داری کو ایمانداری سے نبھائیں اللہ تعالی اولاد کی اچھی پرورش کرنے پر بہترین اجر عطا کرتا ہے۔ آپ نہیں جانتے جو آپ سے دور رہیں انہوں نے کیا کچھ فیس کیا اگر لڑکی ہے تو اس نے اپنے کردار پر اٹھنے والی انگلی کو توڑنے کی بجائے خود کو ہی توڑ لیا۔ اگر لڑکا ہے تو وہ چوری یا جوئے جیسے برے کاموں میں مبتلا ہوگیا۔
اپنے بچوں کی تربیت خود کریں اور انہیں وہ بنائیں جو آپ چاہتے ہیں۔ وہ ماحول دیں پھر آپ کا بچہ کمال کرے گا پھر آپ کا بچہ صرف آپ کے لیے ہی نہیں دنیا کے بہت سے بچوں کے لیے ایک مثال بنے گا۔ اپنے بچوں کو گھر سے دور نہ بھیجیں اپنے قریب رکھیں خوش رہیں خوشحال رہیں۔ اپنا اور اپنے بچوں کا بہت خیال رکھیں۔
اللہ تعالی تمام والدین کو ان کے بچوں کے سر پر سلامت رکھے۔ اگر اسے کالم کو کوئی والد یا والدہ پڑھ رہا ہے تو اللہ تعالی اسے صحت تندرستی والی زندگی عطا کرے اور اپنے بچے اور بچی کی بہترین تربیت کرنے کی توفیق عطا کرے۔ میرا کالم پڑھنے کے لیے اور مجھے اپنا قیمتی وقت دینے کے لیے آپ سب کا دل سے شکریہ!

