Agar Koi Aik Kaam Kar De To
اگر کوئی ایک کام کر دے تو

اگر کبھی ہم کسی سے کوئی کام بولیں اور وہ کر دے۔ تو ہم اس پر اس کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے اسے اور کام بول دیتے ہیں۔ جسے وہ کر تو دیتا ہے لیکن اس خوشی سے نہیں کرتا۔ اب اس میں اس کا قصور نہیں اس میں ہمارا قصور ہے کیونکہ اگر اس نے ایک احسان ہم پہ کر ہی دیا ہے تو ہمیں اس پہ اس کو شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ لیکن ہم کرتے کیا ہے؟ کہ کوئی ہمیں بیٹھنے کی جگہ دے تو لیٹنے کی ہم خود بنا لیتے ہیں۔
ہمیں ماننا ہوگا کہ یہ عادت بہت بری ہے۔ اس سے صرف اور صرف ہمارا نقصان ہوتا ہے۔ کسی اور کا نہیں۔ اگر ایک بندہ آپ کا ایک کام کر رہا ہے وہ بھی اپنی زندگی میں مصروف ہونے کے باوجود لیکن پھر بھی اس نے پہلے آپ کا کام کیا۔ اب آپ پہ فرض ہے کہ آپ اس کا شکریہ ادا کریں۔ مگر ہم ایسا نہیں کرتے ایک کام کر دیا ہم دوسرا کروانے لگ جاتے ہیں کہ یہ ہمارا دوسرا کام کر دیا۔ تو اس سے نقصان کیا ہوتا ہے؟
وہ بندہ جو پہلے ہماری بہت عزت کرتا تھا یا ہمارے ایک بار بولنے پر حاضر ہو جاتا تھا۔ اب وہ ہم سے دور رہنا شروع کر دیتا ہے۔ اب وہ ہم سے تنگ آ جاتا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ یہ بدل گیا ہے۔ اب وہ آپ کا کام نہیں کرتا۔ جو آپ اسے کہتے ہیں۔ وہ آپ کی مرضی کے مطابق نہیں چلتا۔ اس لیے وہ اچھا نہیں۔ جب وہ آپ کے مطابق چلے آپ کی ہاں میں ہاں کرتا تھا۔ جب آپ کے ایک بار کہنے پر آپ کا کام کر دیتا تھا۔ تو وہ اچھا تھا۔ اب اس نے اپنی مرضی کی اس نے آپ سے معذرت کی تو آپ کہہ رہے ہیں وہ انسان اچھا نہیں ہے۔
میں نے سوچا نہیں تھا وہ کبھی مجھے یہ کہے گا۔ تو کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اب جو اس کا رویہ آپ کے ساتھ بدلہ ہے اس میں آپ کا کتنے پرسنٹ کا قصور ہے؟ نہیں۔ ایسا ہی ہے نا ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں اسی وجہ سے ہم آج اپنے رشتوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر وقت انسان کا موڈ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ جس طرح آپ کبھی خوش کبھی غمگین کبھی سنجیدہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہو سکتا ہے وہ بھی ان میں سے کسی ایک حالت میں مبتلا ہو جس کا آپ کو اندازہ نہ ہو۔
حالات کے لحاظ سے رشتوں کو جج نہ کریں۔ اگر کوئی آپ کا ایک کام کر دے تو اس پر اس کا شکریہ ادا کریں نہ کہ اسے دوسرا کام بول کر اپنی عزت کم کریں۔ آج کل کی زندگی میں کوئی آپ کو وقت دے رہا ہے۔ کوئی آپ کے ساتھ چل رہا ہے۔ کوئی آپ کی ایک آواز پر دوڑا دوڑا آ رہا ہے۔ تو اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔ حالات ایک جیسے نہیں ہوتے انسان کبھی خوش ہوتا ہے۔ کبھی غمگین ہوتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم خوش ہیں مگر دوسرا بندہ جس سے ہم اپنی خوشی شیئر کرنا چاہ رہے ہیں وہ کسی پریشانی میں مبتلا ہو اور اسے ہم اس وقت اپنی خوشی کا بتائیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اور زیادہ دکھی ہو جائے۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر ہمیں اسے اپنی خوشی بتائیں اگر وہ واقعی ہمارا سچا دوست ہو۔
ہمیں سمجھنے والا ہو تو وہ ہماری خوشی میں خوش ہو جائے گا۔ اگر آپ امید کرتے ہیں نا کہ دوسرا بندہ آپ کی خوشی میں خوش ہو جائے تو پھر آپ کو بھی یہ کرنا پڑے گا کہ آپ اس کے غم میں برابر کے شریک ہوں اور اسے تسلی دیں کہ پریشان نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے اللہ اپنے بندوں سے بہت محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیشہ اسی بندے کی آزمائش کرتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے۔ تو یہ جملے زیادہ بہتر ہوں گے بجائے اس کے کہ آج میں بہت خوش ہوں آج میں نے یہ کامیابی حاصل کر لی اگلے بندے کو سمجھنا پڑے گا آپ کو بھی۔
یاد رکھیں اگر ہم چاہتے ہیں کوئی ہمیں سمجھے تو ہمیں اسے سمجھنا پڑے گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کوئی ہمارا خیال کرے تو ہمیں خیال کرنا پڑے گا۔ لین کا دین ہوتا ہے فری میں کچھ بھی نہیں ملتا۔ بندوں کو راضی کرنا چھوڑیں اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے حقوق و فرائض کو ایمانداری سے پورا کریں اور یاد رہے کہ اللہ بندے کے حقوق معاف نہیں کرے گا اس لیے بندوں کے حقوق ادا کریں اس پر اللہ ہمیں اجر دے گا اور بہتر سے بہترین ہوگا۔ انشاء اللہ تعالی اور یاد رکھیں کوئی بیٹھنے کی جگہ دے تو لیٹنے کی جگہ نہیں بناتے۔ کوئی ہاتھ دے تو اس کا بازو نہیں کھینچتے اپنی حدود میں رہنا سیکھیں۔ یہ زندگی کا سب سے سنہرا اصول ہے۔ اگر آپ اپنی حدود نہیں بھولیں گے تو آپ سے بڑا کامیاب انسان کوئی نہیں ہے۔
یاد رکھیں انسان غلطیوں کا پتلا ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اللہ کے علاوہ کسی کا اتنا ظرف نہیں کہ وہ اتنی غلطیوں کے باوجود بھی اپنی رحمت اپنی محبت اپنا کرم آپ پہ کم نہیں کرتا۔ یہ صرف رب کی صفت ہے یہ صرف رب کی خوبی ہے۔ انسان تمام مخلوقات سے بہتر ضرور ہے۔ مگر اس میں بھی یہ خوبی نہیں ہے ایک غلطی تو کرکے دیکھیں اس نے اگلی پچھلی آپ کی غلطیاں آپ کو نہ گنا دی تو بات کریے گا۔ اس کے اس رویے پر بھی اگر ہم غور کریں تو وہ ہمارا ہی فائدہ کرتا ہے وہ ہمیں یاد کرواتا ہے۔ کہ سب سے بڑی ذات اللہ کی ہے معاف کرنے والی ذات اللہ کی ہے۔ ان باتوں کو جتنی جلدی ہم سمجھ لیں سیکھ لیں ہماری زندگی اتنی ہی آسان ہو جائے گی۔
رشتوں کو ضرور نبھائیں مگر اتنا جتنا انہیں نبھانے کا حکم ہے۔ اللہ تعالی اس وقت تک بندوں کو معاف نہیں کرتا جب تک وہ اللہ کے بندوں کے حقوق ادا نہ کر دے۔ آپ اللہ کے بندوں کے حقوق ادا ضرور کریں۔ مگر اس کے اجر کی امید صرف اللہ سے رکھے یاد رکھیں۔ قران پاک میں اللہ تعالی نے خود فرمایا ہے۔ انسان جس کے لیے کوشش کرتا ہے اسے وہی کچھ ملتا ہے۔ اس لیے اپنی ساری امیدیں اللہ پر رکھیں۔ وہ آپ کو وہاں سے دے گا اور اتنا دے گا کہ آپ کے گمان میں بھی نہ ہو۔ پھر سے جملہ دہرا رہی ہوں اگر کوئی ایک کام کر دے تو اس پہ اس کا شکریہ ادا کریں۔ نہ کہ اسے دوسرا کام بول کر اپنا اور اس کا تعلق خراب کریں۔

