Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ayaz Khawaja
  4. Ghareeb Ul Watni

Ghareeb Ul Watni

غریبُ الوطنی

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریبُ الوطنی ہوتی ہے

یہ شعر صرف شاعری نہیں، حقیقت کی آئینہ داری ہے۔ ایک ایسا شخص جو اپنے وطن کو پیچھے چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں نئی زندگی کی تلاش میں نکلتا ہے، وہ صرف روزگار یا آرام دہ زندگی کی تلاش میں نہیں ہوتا، وہ اپنے ساتھ خواب، خواہشیں، قربانیاں اور اعتماد لے کر نکلتا ہے۔ مگر جب وہ خواہشیں بکھرنے لگیں، تو وہی خواب ایک بھیانک خواب بن جاتا ہے۔

امریکہ میں حالیہ سخت امیگریشن پالیسیوں نے لاکھوں تارکینِ وطن کو عدم تحفظ میں مبتلا کر دیا ہے۔ جون 2025 تک 2 لاکھ 7 ہزار افراد کو ملک بدر کیا جا چکا ہے اور ٹرمپ کے مجوزہ "بگ اینڈ بیوٹیفل بل" کے تحت ہر سال 10 لاکھ افراد کو نکالنے کی تیاری ہے۔ وہ لوگ جو یہاں دہائیوں سے رہائش پذیر تھے، کام کر رہے تھے، ٹیکس دے رہے تھے، ان کے لیے بھی فضا غیر یقینی ہوگئی ہے۔

نسلی اقلیتوں کے علاقوں پر خاصا اثر پڑا ہے، آرٹیشیا (کیلیفورنیا)، ڈیوون ایونیو (شکاگو)، ڈیئربورن (مشی گن)، جیکسن ہائٹس (نیویارک) جیسے علاقے جو کسی زمانے میں "لٹل انڈیا"، "عرب ٹاؤن" یا "منی پاکستان" کہلاتے تھے، اب سنسان ہو گئے ہیں۔ چھاپوں، گرفتاریوں اور اچانک ڈیپورٹیشنز نے ان علاقوں کے کاروبار، بازار اور معمولات کو معطل کر دیا ہے۔

زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ کئی قانونی رہائشی، یہاں تک کہ گرین کارڈ ہولڈرز اور پاسپورٹ والے بھی خوف زدہ ہو چکے ہیں۔ نیویارک کے میئر ایرک ایڈمز کو بھی غلطی سے حراست میں لیا گیا، جبکہ کئی نامور کھلاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ریپبلکنز واضح کہہ چکے ہیں کہ "جو ہوگیا، سو ہوگیا"، کسی کو واپس بلانے کی کوئی گنجائش نہیں۔

کاروباری طبقے کے لیے یہ صورتحال ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ چھوٹے اور نسلی کاروبار جو کم اجرت پر تارکین وطن کو ملازمت دیتے تھے، اب لیبر کی شدید کمی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ویزا اور کاغذی حیثیت کے مسائل کے سبب ورکرز کا استحصال بھی بڑھتا رہا اور اب وہی ورکرز غائب ہیں، تو کاروبار بھی ڈگمگا رہے ہیں۔

ادھر سیاسی منظرنامہ اور زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان کھینچا تانی جاری ہے۔ ٹرمپ کی دیوار دوبارہ تعمیر کرنے کی بات ہو رہی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ میکسیکو تعاون کرے گا۔

مقامی شہریوں کی ایک بڑی تعداد ان سخت اقدامات پر خوش ہے، کہ ان کا ملک "غیر ملکیوں سے صاف" ہو رہا ہے، لیکن یہی لوگ ان سڑکوں پر ہونے والی سخت کارروائیوں اور گرفتاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔

برآمد شدہ افراد میں ایسے بھی تھے جن کے بچے یہاں پیدا ہوئے، جو امریکی اسکولوں میں پڑھتے تھے اور جو خود امریکی معیشت کا حصہ بن چکے تھے۔ اب تو برتھ رائٹ سٹیزن شپ بھی خطرے میں ہے۔ اگر یہ حق بھی واپس لے لیا گیا، تو لاکھوں خاندانوں کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔

کس کو قاتل میں کہوں، کس کو مسیحا سمجھوں؟

یہ صرف قانون کا مسئلہ نہیں، یہ انسانوں کی شناخت، ان کی عزتِ نفس اور ان کے مستقبل کی جنگ ہے۔ غریب الوطنی صرف جغرافیائی جدائی نہیں، ایک ایسی کیفیت ہے جہاں انسان ہر جگہ اجنبی بن جاتا ہے۔ برسوں رہنے کے باوجود، جب زمین آپ کو اپنا نہ سمجھے، تو وہ احساس ناقابلِ بیان ہوتا ہے۔

قانون کا احترام ہر ملک میں ضروری ہے، مگر قانون کا نفاذ انسانیت کے بغیر بے معنی ہو جاتا ہے۔ ورنہ وہ دیواریں جو سرحدوں پر کھینچی جاتی ہیں، وہ دلوں میں بھی کھنچنے لگتی ہیں۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz