Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ayaz Khawaja
  4. Dunya Aik Baar Phir Jang Ki Lapet Mein

Dunya Aik Baar Phir Jang Ki Lapet Mein

دنیا ایک بار پھر جنگ کی لپیٹ میں

دنیا کے کئی ممالک ایک بار پھر جنگ کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ کس نے جنگ شروع کی؟ کس نے آگ بھڑکائی؟ کس نے ایندھن ڈالا؟ یا کس نے اس کی حمایت کی؟ یہ سب شاید اتنا اہم نہیں جتنا یہ کہ کون مر رہا ہے، سرحد کے دونوں طرف۔ اصل اہمیت اس تکلیف، بربادی، اموات اور صدیوں تک رہنے والے صدمات کی ہے جو جنگ اپنے ساتھ لے کر آتی ہے اور یہ سب کچھ روکا جا سکتا ہے، اگر قومیں ایک دوسرے کو سمجھنے لگیں، بات چیت اور سفارت کاری کو ترجیح دی جائے۔

حال ہی میں اسرائیل نے ایران پر پیشگی حملہ کیا ہے تاکہ اس کے نیوکلیئر پروگرام اور صلاحیتوں کو تباہ کیا جا سکے۔ یہ جنگ اب پانچویں روز میں داخل ہو چکی ہے اور اس کا دائرہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ آگے کیا ہوگا، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

جی سیون اجلاس کے دوران صدر ٹرمپ کی اچانک واپسی بھی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ یہ سوچنا تو شاید مذاق لگے کہ وہ جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے لیے اجلاس چھوڑ کر واپس آئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی آرمی چیف کو واشنگٹن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا گیا اور یہ خبر بین الاقوامی میڈیا اور سفارتی حلقوں میں خوب گردش کر رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف رسمی ملاقات نہیں تھی، بلکہ یہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے یا درخواست کرنے کی ایک کوشش تھی کہ وہ امریکہ کو اپنی فضائی حدود اور اڈے فراہم کرے۔

یہ اڈے اس ایران-اسرائیل جنگ میں خاص اہمیت رکھتے ہیں، خاص طور پر بلوچستان کے قریبی علاقے، جہاں سے ایران کو گھیرنے اور اس کے نیوکلیئر پروگرام کو روکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایران کو چاروں طرف سے گھیر کر نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں انخلاء (evacuation) کے احکامات بھی جاری ہو چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا جنرل عاصم منیر بھی عمران خان کی طرح "Absolutely Not" کہنے کی ہمت دکھائیں گے؟ یا وہ بس آسانی سے فضائی حدود اور اڈے "فرائز کے ساتھ" پیش کر دیں گے؟ سچ کا لمحہ ابھی باقی ہے۔

گزشتہ پانچ دنوں میں ایران نے کم از کم 400 میزائل داغے ہیں جن میں سے 90 فیصد کو ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔ اسرائیل پہلے ہی ایران کے فضائی دفاعی نظام کو تباہ کر چکا ہے۔ ایران کا سارا نیوکلیئر انرجی انفراسٹرکچر زمین کے نیچے، فوردو کے پہاڑوں میں چھپا ہوا ہے، جہاں تہہ در تہہ بنکرز میں لیبارٹریاں اور پلانٹس قائم ہیں۔ اسرائیل کے پاس ایسی گہرائی تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں، اس لیے امریکہ کی شمولیت ناگزیر ہے، خاص طور پر bunker buster بم اور جدید جنگی طیاروں کے ذریعے، جو اس مقصد کے لیے آزمائے جا چکے ہیں۔

ادھر امریکی عوام ایک اور غیر ملکی جنگ میں اپنے ٹیکس کے پیسے جھونکتے دیکھنا نہیں چاہتے۔ ٹرمپ اس وقت شدید دباؤ میں ہیں، اسی لیے ان کے بیانات مبہم اور گول مول ہیں، کیونکہ وہ جنگوں سے بچنے اور ان کے اخراجات و اثرات کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اب جب کہ جنگ اپنے پانچویں دن میں داخل ہو چکی ہے، دونوں ممالک اپنے اتحادیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ لیکن امریکہ کے برخلاف، روس نے واضح طور پر میڈیا کو بتا دیا ہے کہ اگر ایران جنگ میں گیا، تو وہ اس کی حمایت کرے گا، اسرائیل کے خلاف۔

ایک طویل جنگ کسی بھی ملک، اس کی قوم اور معیشت کے لیے بدترین مصیبت ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ ٹی وی، سوشل میڈیا یا اخبار میں معمول کا لگتا ہے، لیکن جب بم آپ کے محلے پر برسنے لگیں، آسمان میں میزائلوں کی چیختی ہوئی آوازیں سنائی دیں، گلیوں میں ٹینک اور گاڑیاں گشت کریں، گولیاں چلیں، فضائی حملے ہوں اور جب لوگ آپ کی آنکھوں کے سامنے دم توڑنے لگیں، تب آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ جنگ کیا ہوتی ہے، درد اور تکلیف کا اصل مطلب کیا ہوتا ہے۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed