Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aurangzeb Nadir
  4. Molana Abdul Ul Haq Baloch Aik Ehad Saz Shakhsiyat

Molana Abdul Ul Haq Baloch Aik Ehad Saz Shakhsiyat

"مولانا عبد الحق بلوچ" ایک عہد ساز شخصیت

سر زمین بلوچستان بہت زرخیز ہے جس نے بہت سی شخصیات کو جنم دیا ہے۔ جنہوں نے سیاسی، سماجی اور تعلیمی میدان میں مثالی خدمات انجام دیں۔ جن میں ایک مولانا عبد الحق بلوچ تھے جس نے سیاسی اور تعلیمی شعبہ میں بیش بہا خدمات انجام دیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ ان کی سیاسی اور علمی میدان میں خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ان کی علمی بصیرت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

مولانا صاحب نے ضلع کیچ کے نواحی علاقے درپکان زعمران میں 5 جنوری 1947 کو ایک معزز علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد محترم مولانا محمد حیات بلوچ بیک وقت قبیلے کے سربراہ بھی تھے اور ایک بلند پایہ عالمِ دین بھی۔ مولانا عبدالحق بلوچ کے دو بھائی ڈاکٹر محمد سلیم اور پروفیسر صلاح الدین اور فرزندان رحمت اللہ، صبغت اللہ، ثناء اللہ اور محمد حیات ہیں۔

مولانا عبدالحق بلوچ نے ابتدائی زندگی اپنے دیہات کے زرعی ماحول میں گزاری۔ ان کو اپنے والد محترم مولانا محمد حیات اور چچا ملا شفیح محمد کی دست شفقت حاصل تھی۔ میٹرک کی تعلیم انہوں نے ہائی اسکول تربت سے حاصل کی اور سند حاصل کرنے بعد وہ دینی تعلیم کے لئے کراچی منتقل ہوئے۔ پہلے مدرسہ مظہر العلوم لیاری میں ایک سال تعلیم حاصل کی بعد میں دارالعلوم کراچی کورنگی میں داخلہ لیا جہاں سے وہ 1973 میں فارغ التحصیل ہوئے۔ اس کے ساتھ کراچی یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔

کراچی میں قیام کے دوران مولانا صاحب کو اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی سے تعارف حاصل ہوا۔ وہ مولانا مودودی کی تحریروں کو بہت شوق سے پڑھتے تھے اور وہ مولانا مودودی سے بہت متاثر ہوئے۔ بعد ازاں سال 1980 کو تربت میں آئے اور یہاں جماعت اسلامی کی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک سکول اور مدرسے کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل 1973 میں آبائی علاقے ضلع کیچ میں کئی سالوں تک گورنمنٹ ہائی سکول میں انگریزی پڑھاتے رہے۔ 1981 میں جماعت اسلامی کے رکن بنے اور کچھ عرصے کے بعد مولانا عبدالحق بلوچ جماعت اسلامی ضلع کیچ کے امیر منتخب ہوگئے۔

سال 1988 کو مولانا صاحب کو صوبہ بلوچستان کے امیر جماعت اسلامی منتخب کیا گیا اور آپ نے 15 سال تک اس منصب اور ذمہ داری کو بہت ہی حکمت کے ساتھ انجام دیا۔ سال 2004 کو لیکر آخری آیام تک مرکزی نائب امیر کی ذمہ داری کے فرائض سرانجام دیئے۔ مولانا صاحب ایک مذہبی رہنما اور اعلی پایہ کے سیاستدان تھے۔ مولانا صاحب 1985 میں مکران کے صوبائی اور قومی نشتوں پر کامیاب ہوئے، انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست کو ترجیح دیا اور 1985 سے 1988 تک پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر خدمات انجام دیں۔

اگر ان کی عام زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو وہ بہت ہی سادہ اور خوش مزاج انسان تھے۔ مولانا عبدالحق بلوچ نہایت شگفتہ مزاج شخصیت کے مالک تھے جو ایک دفعہ ان کی محفل میں شریک ہوگیا وہ ہمیشہ کے لیے ان کا گرویدہ ہوگیا۔ عربی، فارسی اور اردو کے بہت سے اشعار کا ذخیرہ ان کے ذہن میں محفوظ تھا۔ اس کے علاوہ بلوچی ادب پر انہیں ایساعبور تھا کہ اس میدان میں اپنی مثال آپ تھے اور بلوچ قوم پرست بھی ان کی اسی مہارت کی بناپر انہیں اپنی محفلوں کی زینت سمجھتے تھے۔

مولانا کو کتابوں سے خاص شغف تھا جن لوگوں نے مولانا کو ذرا قریب سے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ مولانا کتابوں کے رسیا تھے۔ نادر کتابیں، نئی کتابیں متنوع موضوعات پر کتابیں غرض ہرطرح کی کتابیں زیر مطالعہ رہتیں۔ پروفیسر خورشید احمد ان کی کتابوں سے بےحد عشق پر لکھتے ہیں کہ مجھے ان کے ساتھ کابل جانے کا شرف حاصل ہوا تو کہتے ہیں کہ کابل کے قیام کے دوران صبح و شام میزائلوں کی بارش کے ماحول میں بھی وہ پروفیسر ابراہیم اور یہ خاکسار بار بار کابل کے بازاروں میں پرانی کتابوں کے انبار کی تلاش میں سرگردان رہتےہیں۔ مولانا اپنے اندر ایک علم کا سمندر تھے۔ ان کی ذاتی لائبریری تربت کی سب سے بڑی لائبریری سمجھی جاتی ہے۔ آج بھی لوگ ان کی لائبریری سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ مولانا صاحب ایک بڑے عالم اور دانشور تھے علاقے کے اکثر بڑا تعلیم یافتہ طبقہ ان سے اپنے علم کی پیاس بجھانے ان کے پاس آتے تھے۔

مولانا بڑے حوصلہ مند ، صابر وشاکر اور راضی برضا رہنے والے شخص تھے ان کی بیماری پریشان کن تھی، ایک ہی گردہ وہ بھی بیمار لیکن مولانا کی مسکراہٹ آخر وقت تک قائم رہی۔ پیدائشی طورپر مولانا صاحب ایک گردہ سے محروم تھے۔ آخری دو سال ڈائی لیسز پر زندگی گزار رہےتھے۔ اسی کشمکش میں زندگی کی جنگ لڑرہےتھے اور بالآخر ڈاکٹروں کے مشورے پر گردے کی ٹرانسپلانٹ کا فیصلہ ہوا۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا حالانکہ مولانا کے صاحبزادے نے باپ کی زندگی بچانے کے لئے اپنا گردہ پیش کیا لیکن اللہ تعالی کو کچھ اور منطور تھا۔

16 مارچ 2010 کو اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور یوں ہم ایک عظیم سیاسی اور علمی ہستی سے محروم ہوگئے۔ ان کی رحلت کسی سانحہ سے کم نہیں ہے اپنے پیچھے بلوچستان کے ہر طبقے کو اشک بار چھوڑ کر ابدی نیند سو گئے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari