Darwaish Aziz, Ghareeb Bachon Ka Chiragh Bujh Gaya
"درویش عزیز" غریب بچوں کا چراغ بجھ گیا

کچھ لوگ کسی خاص مقصد کے لیے دنیا میں بھیجے جاتے ہیں۔ جو دنیا میں ایسے کام سر انجام دیتے ہیں جن کو صدیوں تک یاد اور سنہرے حروف میں لکھے جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک نوجوان درویش عزیز دشتی تھے۔ جنہوں نے بلوچستان میں بڑھتی ہوئی ناخواندگی کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد ان بچوں کو جو غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔
سات برس قبل درویش عزیز اور ان کے ہم خیالوں نے بلوچستان کی بڑھتی ہوئی ناخواندگی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نئی تنظیم کا وجود رکھا جو ایس ایف اے ویلفیئر آرگنائزیشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایس ایف اے کا مطلب اسکول سب کے لئے۔ اس ادارے کا مقصد ان بچوں کو تعلیم فراہم کرنا ہے جو غربت یا دیگر مجبوریوں کی بنا پر تعلیم سے محروم ہیں۔ اس تنظیم کی زیر نگرانی میں تقریباً 400 سے زائد طلباء و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
یہ تنظیم ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جو اپنی مدد آپ اور عوام کے تعاون سے ان بچوں کے تعلیمی اخراجات کے ساتھ ساتھ ان کی مالی معاونت بھی کرتا ہے۔ ایس ایف اے کی جانب سے تعلیم کی اہمیت کے حوالے سیمینارز کا بھی انعقاد کیا گیا ہے ان علاقوں میں جہاں تعلیم کے حوالے سے پسماندہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کایہ اقدام ضلع کیچ میں شرح ناخواندگی میں کمی کی باعث بنی اور کئی ایسے بچوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہوئےجو تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن سکت نہیں تھی مگر ایس ایف اے ان کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں سرگرم عمل ہے۔
میری ان سے چند سال قبل شناسائی ہوئی۔ میں ان کی تنظیم کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا تھا تو میں نے ان سے رابطہ کیا کہ مجھے آپ کی تنظیم کے بارے میں کچھ معلومات درکار ہیں۔ تو اس نے خوشی کا اظہار کیا کہ آپ ہماری تنظیم کے بارے میں کچھ لکھ رہے ہیں اور مجھے وہ تمام معلومات فراہم کیں جو مجھے درکار تھیں۔ میری ان سے پہلی ملاقات نوساچ اکیڈمی تربت میں کتاب میلے میں ہوئی۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے مسکراتے ہوئے میرا استقبال کیا اور آنے کا شکریہ ادا کیا۔ میں اس کے خوشگوار انداز اور گفتگو کے انداز سے بہت متاثر ہوا۔ ان کے لبوں پر ہر وقت مسکراہٹ تھی اور ہر کسی سے خوش مزاجی سے ملتے تھے۔ اس کے بعد میری ان سے قربت بڑھ گئی۔ میں کئی بار ان کے دفتر گیا اور ان سے بات چیت کی اور ان کے ادارے کے لیے کتابیں بھی عطیہ کیں۔ وقتاً فوقتاً میری ان سے بذریعہ واٹس آپ حال احوال ہوتی تھی۔
درویش عزیز کا وژن ان بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا تھا جو تعلیم حاصل کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے اور ہر بچے کے ہاتھ میں قلم ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے درویش جان گزشتہ روز ایک حادثے کے باعث شہید ہوگئے۔ پیر اور منگل کی درمیانی شب بلوچستان کے ضلع واشک میں بس حادثہ پیش آیا جس میں 28 مسافر جان کی بازی ہار گئے اور درویش عزیز بھی اپنے ادھورے خوابوں کے ساتھ خالق حقیقی سے جاملے۔
29 مئی کی صبح میں نے دیکھا کہ بس حادثہ ہوا ہے، لیکن اس وقت تک کوئی اطلاع نہیں ملی۔ اس دن میرا پیپر بھی ہونا تھا اس لیے میں 9 بجے پیپر دینے گیا اور جب پیپر ختم ہوا اور باہر آیا تو میں اپنے دوست مشتاق احمد کے پاس بیٹھ گیا۔ چند منٹ بیٹھنے کے بعد مشتاق احمد نے مجھے سے کہہ کہ درویش عزیز نامی شخص بھی بس حادثے میں شہید ہوا ہے۔ درویش کا نام سنتے ہی میں نے کہا کہ تصویر دیکھا تو اس نے موبائل فون میری طرف بڑھایا، جب میں نے درویش جان کی تصویر دیکھی تو میرے جسم میں اداسی چھا گئی اور پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ درویش جان ہمیں اتنی جلدی چھوڑ کر چلے گئے۔
امید کرتا ہوں کہ درویش عزیز کے دوست ان کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ ان کی بے وقت رحلت کسی بڑے سانحہ سے کم نہیں تھا۔ ان کا تعلیمی میدان کے لیے بیش بہا خدمات قابل تحسین ہیں اور دعا ہے پروردگار ان سمیت تمام شہداء کو اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

