Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asmatgul Khattak
  4. Smog, Sehra Main Azan

Smog, Sehra Main Azan

سموگ، صحرا میں اذان

گزشتہ سال جب سموگ نے پنجاب سمیت ملک کے دیگر حصوں کو اپنی لپیٹ میں لیا تو حکومتی اداروں کے کان کھڑے ہو گئے اور بھاگ دوڑ شروع ہو گئی۔ عوام کی پریشانی بھی دیدنی تھی کیونکہ گھروں سے نکلنا مشکل ہوگیا تھا۔ سانس اور دیگر متعلقہ بیماریوں نے وباء کی صورت اختیار کرلی۔

اس سے پہلے بھی دھند وغیرہ پڑتی رہی ہے مگر سچی بات ہے زندگی میں پہلی مرتبہ"سموگ" دیکھ کر مجھے بھی مختلف اندیشوں اور ایک انجانے سے خوف نے پریشان کر دیا۔ خاص طور پر بچوں اور اپنی آنیوالی نسلوں پر ہمارے اپنے ہاتھوں پیدا کردہ اس عذاب عظیم کا نزول۔ ہماری اجتماعی نیندیں اڑانے کیلئے کافی ہونا چاہئیے تھا۔ تاہم ہمیشہ کیطرح قدرت جس طرح ہم پر مہربان رہی ہے گزشتہ سال بھی درگزر سے کام لیتے ہوئے اس نے بارشیں برسا کر نہ صرف ہمیں معاف کر دیا بلکہ ایک طرح سے تنبیہ دیکر مستقبل میں معاملات کو درست کرنے اور ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے مربوط پروگرام کی تشکیل اور اس پر عملدرآمد کا سنہری موقع بھی فراہم کیا۔ اب اس کو اپنی اجتماعی بدقسمتی کہا جائے یا خود فریبی کا مرض قرار دیا جائے کہ جونہی اس طرح کا کوئی بھی آسمانی انعام ملے تو ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں اور کسی نئی آفت اور نئی آزمائش کا انتظار کرنے لگتے ھیں۔

خوش قسمتی سے اللہ نے جو خوبصورت خطہ ہمیں انعام کی صورت میں دیا ہے اگر ہمیں اپنے ہاتھوں اتنی تیزی کیساتھ مرنے کی خواہش نہیں ہے تو یقین کیجئے اس سدا بہار گلشن میں تنگئ داماں کے ہزار ہا علاج ہیں۔ مگر اس ٹریجڈی کو کیا نام دیا جائے کہ مستقل اور دیر پا منصوبہ بندی کی بجائے ڈنگ ٹپاؤ اور جگاڑ کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بناکر جدید دنیا کیساتھ ہمسفری کے خواب دیکھتے ہوئے اپنے آپکو دھوکہ دینے میں بہت لطف لیتے ھیں۔"سموگ" کی بنیادی وجوہات میں سب سے اہم وجہ ماحولیاتی آلودگی اور درختوں و جنگلوں کا ناپید ہو نا قرار دیا جارہاھے۔ انسانی ضروریات کیلئے جنگلوں پر ہاتھ صاف کرنا گویا فطرت سے ایک ایسی بیہودہ اور فحش چھیڑ چھاڑ ھے جس کے سنگین نتائج کی ذمہ داری سے ہر گز انکار نہیں کیا جا سکتا۔

کسی زمانے میں چھانگا مانگا اور کندیاں جیسے جنگلات اس خطہء پاک کی زینت ہوا کرتے تھے۔ جو شومئی قسمت آج محض نام ہی کے جنگل رہ گئے ھیں۔ اسی کندیاں (ضلع میانوالی) جنگل کے شمال پڑوس میں تین لاکھ ایکڑ کے قریب دریاء سندھ کا ایک ایسا ذرخیز پانڈ ایریا کیصورت میں خطہءزمین موجود ہے۔ جس کو ذرا سی حکومتی توجہ اور برائے نام سے اخراجات سے پنجاب کے سب سے بڑے جنگل میں بدلا جا سکتا ہے۔۔ حیرت ہے کہ اتنا شاندار اور قدرت کیطرف سے بیش قیمت تحفہ متعلقہ اداروں اور حکومتی زعماءکی نظروں سے ابھی تک اوجھل کیوں اور کیسے رہا ہے؟ اس غفلت اور سستی کے بھیانک نتائج میں سے ایک نتیجہ۔ ہر سال آٹھ تا دس انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہے جو قبضے کی تگ و دو میں قتل جیسی وارداتوں کی بھینٹ چڑھتے ھیں۔

ایک محتاط اندازے کیمطابق اس پانڈ ایریا میں ایک ارب کے لگ بھگ درخت اگائے سکتے ھیں۔ اور یہ پنجاب کا سب سے بڑا جنگل بن سکتا ہے۔ جس سے ماحولیاتی آلودگی میں نہ صرف کمی لائی جاسکتی ہے اور "سموگ" کے عذاب کو مستقل بنیادوں پر ختم کرنیکے ساتھ ساتھ مختصر سے عرصے میں اربوں روپے کی آمدن کے اضافی ذرائع بھی پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر چشمہ بیراج کے ڈیم کی زندگی میں اضافہ بھی اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ آبی گزر گاہ ہونے کی وجہ سے وہ مٹی اور ریت جو اب تک بغیر کسی رکاوٹ و حفاظتی تدبیر کے ڈیم کی سطح زمیں میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہی ہے۔

جنگل کیصورت میں پانی کے بہاؤ کیلئے فطری "فلٹریشن" کا بڑا زبردست نظام مل جائے گا۔ مگر پھر وہی سو باتوں کی ایک بات کہ ہم مستقل مزاجی اور دیر پا منصوبہ بندی کی بجائے "ڈنگ ٹپاؤ" اور "جگاڑ" کے عادی شائید اسلئیے بھی ہیں کہ ہماری قسمت میں پانامے، اقامے، فلیگ شپ، العزیزیہ ریفرنس اور اومنی گروپ جیسے ایشؤز کو اہمیت زیادہ مل جاتی ہے۔ جن کا تعلق ظاہر ہے ملکی خزانے کی لوٹ مار اور کرپٹ شخصیات سے ھوتا ہے۔ جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ملک سے زیادہ ذاتی اغراض و مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہیں جبکہ نعرہ حب الوطنی کا بلند کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتے اور نہ ہی کہیں اپنے اندر دور دور تک کسی طرح کی ملامت محسوس کرتے ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت نے برسراقتدار آتے ہی کلین و گرین پاکستان کا بڑا دلفریب سا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے کے پی کے میں شروع کردہ درخت اگاؤ مہم کے دائرے کو ملک بھر میں وسعت دینے کیلئے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔خوش قسمتی سے پنجاب کے صوبائی وزیر جنگلات سردار سبطین خان کا تعلق بھی چونکہ کندیاں کے جنگل کے حامل ضلع میانوالی سے ہے اور وزیراعظم عمران خان کی سیاسی بنیاد بھی یہی رکھ گئی ہے، تو کیوں نہ ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر کلین و گرین پاکستان کی عملی ابتداء اسی علاقہ سے کی جائے اور خدانخواستہ قدرت کی مسلسل وارننگ کو مسلسل نظر انداز کرنے کیصورت میں جس عذاب اندیشہ اور خوف کا گزشتہ کئی سالوں سے سامنا کر رہے ہیں اس کے مکمل خاتمے کیلئے بر وقت اور بھرپور اقدامات کا جامع و عملی اقدامات کا آغاز کر دینا چاہئیے۔تاہم بدقسمتی سے موجودہ حکومت جس طرح ہر روز نت نئے اعلان کے بعد رات گئی، بات گئی کی عملی تصویر بن کر رہ گئی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ مذکورہ کلین و گرین پاکستان کا نعرہ بھی اعلانات کے اس شور شرابے میں کہیں گم ہو جائے گا۔ سو مجھے یقین ہے کہ میری یہ گزارشات بھی صحرا میں اذان ثابت ہو گی اور اگلے سال سردیوں کی آمد سے پہلے جب دوبارہ سموگ کا عذاب آسمانوں سے اترے گا تو ایک بار پھر دنیا ہماری آنیاں جانیاں دیکھے گی؟ جبکہ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کہ حکومت ن لیگی ہے، پی ٹی آئی کی یا زید و بکر کی ۔۔۔۔۔۔

Check Also

Time Magazine Aur Ilyas Qadri Sahab

By Muhammad Saeed Arshad