Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asmatgul Khattak
  4. Gumrahi

Gumrahi

گمراہی

اللہ کی تقسیم پر ناراض رہنے والا بندہ اس دنیا کا بڑا پیچیدہ سا کیس ہے۔

وہ ایک ہی وقت میں کمزور قوت مدافعت (ایمان) کی وجہ سے کئی طرح کی بیماریوں کا پسندیدہ شکار ہوتا ہے اپنے پیدا کرنیوالے سے ناراض بلکہ بدگمان اور پھر شدید قسم کی خودترحمی کے نتیجے میں بغاوت کا عذاب بھی کسی پل اس کو سکون اور شانتی سے رہنے نہیں دیتا۔

اپنے جیسے دو ہاتھ اور دو پاؤں اور ایک چہرے رکھنے والے اپنے بھائی، دوست، پڑوسی غرض کسی بندے کو جب وہ خود سے آگے بڑھتے دیکھتا ہے تو ایک اور بڑی خوفناک بیماری حسد کا وائرس بھی اس پر حملہ آور ہوجاتا ہے، یہ پگھلا دینے والا عذاب ہے اور یہ وہ آگ ہے جو ہر حاسد خود جلاتا ہے اور خود ہی اپنے آپ کو اس کا ایندھن بناتا ہے۔

ہمارے محبوب ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ ہمیشہ اپنے سے کم تر ( کسی بھی حوالے سے) لوگوں کو دیکھا کرو تو تمہارے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوگا بالاتر کو دیکھو گے تو ناشکری سر اٹھانا شروع کردے گی (مفہوم) ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری کوتاہ بینی کے سبب ہماری نظروں کی ڈائمینشن ہمیشہ آسمان کی وسعتوں کی متلاشی رہتی ہے خوش نصیبی کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان کی نظریں ہمیشہ زمین زاد اور جھکی رہیں زمین پر اکڑ کر اور احسان سمجھ کر چلنے والوں کا انجام کیا ہوا؟ آخر کار اسی کی آغوش میں جا سوئے آسمانوں کے بعد زمین کی مہربانی سمجھیں بلکہ تسلیم کریں کہ وہ آپ کے قدموں تلے بچھ جاتی ہے اور پھر ماں کی طرح آغوش میں بھی لے لیتی ہے۔

اللہ کی تقسیم میں جتنا ہمارا حصہ مقرر کردیا گیا ہے وہ بہرحال ہمیں مل کررہنا ہے مگر اس کیلئے کوشش اور حرکت شرط اولین ہے مزے کی بات یہ ہے کہ اس کوشش اور حرکت کی توفیق بھی اللہ ہی دیتا ہے ہمارے ذہن کی بنجر زمینوں میں خیال کے خوبصورت اور خوشبو دار پھول اور زمانے کو سکھ اور شانتی کی چھاؤں دینے والے برگد کے بیج بھی وہی بوتا ہے اس مقام پر یہ فطری سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ ظلم و زیادتی اور گناہ کے کانٹوں اور زہر آلود جھاڑیوں کا ذمہ دار کون ہے؟

یہ بڑا خطرناک سوال ہے مگر ان بدقسمت لوگوں کیلئے جن کو آنکھیں عطاء کی گئیں مگر وہ دیکھتے نہیں، کان ہیں اور سنتے نہیں جن کے دلوں پر پردے ڈال دئیے گئے ہیں، اس دنیا کو اسی لئے تو دارالامتحان قراردیاگیا ہے اگر ہمیں کسی طرح کا کوئی اختیار سرے سے دیا ہی نہ جاتا تو جزاو سزا اور قیامت چہ معنی دارد؟

آج وہ برگزیدہ لوگ، جو اس زمین پر اللہ کے حضور پہنچے ہوئے اس کی "خصوصی نمائندگی" کے دعوے دار بن کر حوروں بھری جنت کے دھڑا دھڑ ٹکٹ بیچتے پھر رہے ہیں وہ چند روزہ زندگی کیلئے جھوٹ و فراڈ اور دھوکے کا سودا فروخت کررہے ہیں گھاٹے کے ان سوداگروں سے اللہ کی پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے جن کیلئے بذات خود بروز قیامت بڑی غضبناک سزاؤں کی وعید فرمائی گئی ہے۔

اللہ کا ظرف کتنا وسیع ہے؟ افسوس ہمارے پاس کوئی ایک بھی ایسا پیمانہ نہیں جس کی مدد سے اس کا اندازہ ہی لگایا جاسکتا۔ وہ اپنے منکر پر بھی رزق کے دروازے بند نہیں کرتا واضح رہے کہ خیال اور سوچ بھی رزق ہی ہے وہ اگر خیال اور سوچ کا رزق چھین لے تو کس کی مجال ہے کہ اس کے آگے کوئی دم مار سکے؟

مگر وہ اپنے ڈیزائن یا اسکیم کیمطابق، اپنی مخلوق کو آزماتا رہتا ہے اس آزمائش کیلئے اختیار کا ہونا ضروری ہے اگرچہ جزوی ہی سہی، اس ڈیزائن اور اسکیم کا کینوس جتنا وسیع و عریض ہے ہماری فہم و فراست اور عقل و شعور کا دائرہ اتنا ہی محدود ہے سو، اس محدود دائرے سے باہر، اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر کامل ایمان ہی گمراہی سے بچاتا ہے خوش نصیب ہیں وہ جو اس گمراہی سے بچ گئے اور انکی بدنصیبی پر دو آنسو بھی کیا بہانے جو اللہ کی تقسیم پر بھی ہر وقت اور ہر لمحہ شکوہ کناں رہتے ہیں؟

دعا کیجئے کہ ہم سب اس گمراہی سے کسی طور بچ جائیں اللہ ہم سب کا حامی و شافی ہو۔

Check Also

Hamzad

By Rao Manzar Hayat