Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asmat Javed
  4. Yakjehti e Kashmir

Yakjehti e Kashmir

یکجہتی کشمیر‎‎

ماں کشمیر تو جنت ہے ناں جنت میں طوفان ہے کیوں؟پچھلے برس جولائی میں ہم نے کشمیر کی سیر کا ارادہ کیا تو چند دوستوں کی خواہش تھی کہ بائیک ٹوور کیا جائے، یوں ہم موٹرسائیکلوں پہ کشمیر کے لیے صبح صادق روانہ ہوگئے۔پہلی رات مظفرآباد کی سیر کے بعد اگلے روز ہماری منزل وادی نیلم تھی،وادی نیلم میں جب آپ داخل ہوتے ہیں تو وادی کی خوبصورتی اپنی کشش کی بدولت سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہے۔

ہم موٹرسائیکلوں پہ تھے، اس لیے ہم یہ حسین مناظر اور بھی قریب سے دیکھ رہے تھے،سفر مسلسل جاری تھا، لیکن نیلم جہلم پراجیکٹ سے آگے ہماری موبائل سروسز بند ہو گئی تھیں جس کا ہمیں پہلے سے اندازہ تھا اس لیے مظفرآباد سے روانگی سے قبل ہم نے SCOM سمز خرید لیں تھیں،میں موٹر سائیکل ڈرائیوکررہا تھا، میرے پیچھے بیٹھے دوست نے اچانک میرے کندھے پہ زور سے تھپکیاں دیں کہ رکو رکو!

میں نے اچانک بریک لگائی وجہ پوچھی تو دوست نے بتایا وہ دیکھو سامنے بھارت کا جھنڈا نظر آ رہا ہے،لگتا ہے شاید سامنے مقبوضہ کشمیر ہے۔۔

دوستو! ہم وہاں رک گئے اور بہت دیر تک حسرت بھری نگاہوں سے مقبوضہ کشمیر کی وادی کو دیکھتے رہے،یہ لمحہ بہت درد بھرا تھا،دو وادیوں کے درمیان صرف اک دریائے نیلم حائل تھا۔۔ !!

دریا کا دریا دل ہونا بھی تو بہت ضروری ہے،ایک طرف دشمن کے شکنجے میں جکڑے کشمیری جہاں مسلسل کرفیو ہے،دوسری طرف ہم آزادانہ گھومتے پھرتے۔دریائے نیلم اپنی دریا دلی سے سیراب کرتے ہوئے دنیا کے ایوانوں پہ چیخ چیخ کر دستک دے رہا تھا کہ یہی دریا دلی ہے کہ ان نفرتوں کو پروان نہ چڑھاؤ، دریا دل ہوجاؤ

میں نے سمندر سے سیکھا ہے جینے کا سلیقہ

چپ چاپ سے بہنا، اور اپنی موج میں رہنا

دریا کے اِس پار بھی مقامی لوگ کنارے پہ اپنے مال مویشی چرا رہے تھے، دریا کے اُس پار بھی مقبوضہ وادی میں ہماری چند بہنیں مویشی چرا رہی تھیں،

وادی کے اُس پار سکوت تھا، خاموشی تھی

مکان بھی تھے، مگر مکین نہیں تھے

انسان تو تھے، مگر ان کی روح ہمارے دلوں میں بھٹک رہی تھی،وادی کے اِس پار بھی لوگ تھے جو بظاہر آزاد تھے، مگر یقین جانیں ہر چہرہ اداس تھا، ہر شخص بہت خاموشی سے ان رستوں سے گزر رہا تھا کہ جیسے کوئی اپنا چھوڑ گیاہو، یا کسی اپنے کو چھوڑ کر جانا پڑ رہا ہو۔

ہم یہاں آزاد کھڑے تھے، مگر دوسری طرف جب پہاڑی کی چوٹی پہ نگاہ پڑی تو بھارتی بزدل فوجی چیک پوسٹ بنائے کھڑے تھے،میری آنکھوں میں صرف ضبط تھا، مرے دل میں آنسو تھے، کہ یہ لوگ صرف آزادی چاہتے ہیں، آزادی ان کا آئینی حق ہے،نا چاہتے ہوئے بھی آگے بڑھنا پڑا، ہم نے شام ہونے تلک منزل تک پہنچنا تھا،ہم نے سفر دوبارہ جاری کیا تو رستے میں کھانا کھانے کے لیے ایک ہوٹل پر رکے۔

ہوٹل کی لوکیشن بھی کچھ ایسی تھی کہ ہوٹل کی کھڑکی درائے نیلم کی طرف کھلتی تھی نیلم کے پار مقبوضہ کشمیر تھا، ہم دوست احباب کھانا کھانے کے انتظار میں باری باری کھڑکی سے جھانکتے تصویریں لے رہے تھے۔ہم کھانے کا انتظار ہی کر رہے تھے کہ سامنے لگے ٹی وی پر خبر چل رہی تھی کہ"اُدھر مقبوضہ وادی کشمیر میں بھارتی بربریت کا نشانہ بننے والے دو کشمیری نوجوان شہید ہوگئے"۔

قارئین! زندگی میں پہلی دفعہ کشمیریوں کے سامنے اپنی آزادی پہ بھی رونا آیا، یہ کشمیر کا سفر ضرور تھا، کشمیر کی سیر ضرور تھی مگر اس سفر نے اندر تک چور کر دیا، مجھے محسوس ہوا کہ شاید میں بھی انہی حکمرانوں کی طرح ہوں جو ہر سال پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں اور جھوٹی آس اور امیدیں لگاتے ہوئے پورا سال کشمیریوں کو بھول جاتے ہیں،کشمیر کا سوگ دل میں لینا ہے تو ایک دفعہ صرف بارڈر پر جا کر دیکھیں کہ ہمارے کشمیری بھائیوں پہ کیا کیا ظلم کیا جا رہا ہے، ورنہ دن تو آتے ہیں گزر جاتے ہیں۔جانِ وطن کشمیر کے لیئے چند دعائیہ اشعار۔۔

افواجِ علمدار کی توقیر بچا لے

اقبال کے اک خواب کی تعبیر بچا لے

شہہ رگ ہے مسلمان کی کافر کے دہن میں

اللہ میرا نعرۂ تکبیر بچا لے

یارانِ جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت

میں کہتا ہوں جنت کی ہے تصویر، بچا لے

تقدیر وطن کی تری رحمت پہ پڑی ہے

کن بول دے، کردے کوئی تدبیر بچا لے

دے صدقہِ شبیرؑ ہمیں بارِ الٰہی

اے مالکِ اعظم میرا کشمیر بچا لے

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed