Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asma Tariq
  4. Zindagi Se Narazgi

Zindagi Se Narazgi

زندگی سے ناراضگی

دس ستمبر کو دنیا بھر میں خودکشی سے متعلق آگاہی کا دن منایا جاتا ہے جہاں یہ کوشش ہوتی ہے کہ زندگی سے پریشان لوگوں کا سہارا بنا جائے، انہیں حوصلہ دیا جائے اور جتنی ممکن ہو انہیں آگاہی پہنچائی جائے۔۔ یہ آگاہی پہنچانا بہت ضروری ہے تاکہ بہت ساری قیمتی جانیں بچائی جا سکیں۔۔

خود کشی یعنی اپنی جان لینا۔ ایسا نارمل حالات میں کوئی نہیں چاہے گا۔ جب حالات بہت برے ہو جائیں یا انسان جو چا رہا ہو اسے مل نہ رہا ہو تو اس کے ذہن میں خودکشی کے حالات پروان چڑھتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں روزانہ 15 سے 35 افراد اپنی جان لے لیتے ہیں اور خود کشی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جناب یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہر گھنٹے میں ایک شخص خودکشی کر رہا ہے۔ ابھی تو ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے بہت زیادہ ہے مگر چونکہ لوگ ڈرتے ہیں اور اپنی عزت بچانا چاہتے ہیں تو کبھی اس بات کو گھر سے باہر نکلنے ہی نہیں دیتے۔

ہمارے ہاں تو اس موضوع پر بات کرنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر بنا گفتگو کیے ہم کیسے سمجھ پائیں گے کہ خود کشی کیوں کی جاتی ہے۔ یا وہ لوگ جو اس عمل سے گزرتے ہیں انہیں کس طرح کے معاشرتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کہیں اسکی وجہ ہم ہی تو نہیں۔ کہیں ہم ہی نے تو اسے مجبور نہیں کیا۔ ہمیں اپنے گھروالوں، دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں کے حالات اور ماحول پر نظر دوڑانے اور یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے۔۔ اور یہ بھی کہ آج میری گفتگو سے کسی کو تکلیف تو نہیں پہنچی؟

ہمیں اپنوں کے ساتھ رابطے قائم کرنے ہیں۔ انہیں سننا ہے بنا جج کیے اور ان پر الزام ٹھہرائے۔ ہمیں اس گفتگو کی ذمہ داری اٹھانی ہو گی۔ ہمیں ذاتی، باہمی، پیشہ وارانہ اور سماجی سطح پر ہونے والی گفتگو میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر باربرا شنائڈر کے مطابق خود کشی کے خطرے سے دوچار افراد کو باقی تمام انسانوں کی طرح ایک بات کا ہمیشہ علم بھی ہونا چاہیے اور یقین بھی: "رابطہ کیجیے، بات کیجیے، مدد ممکن ہے۔ اس طرح ہم مسائل حل کر سکتے ہیں مگر دبانے اور نہ بات کرنے سے مسئلے بڑھیں گے۔

پاکستان میں، خودکشی کرنے والوں میں اکثریت شادی شدہ خواتین کی ہے۔ اس طرح کی خودکشیوں کی وجہ مالی اور ازدواجی مسائل کے ساتھ ساتھ خاندانی دباؤ اور ذلت ہے۔ خودکشی ہمیشہ جان بوجھ کر نہیں کی جاتی ہے۔ بعض اوقات نفسیاتی اور طبی حالت خود کشی کے رجحان کو جنم دیتی ہیں۔

خودکشی خود ایک جرم ہے، لیکن ظاہر ہے کہ جس نے خودکشی کی ہے اسے سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اس کے ارتکاب سے وہ پہلے ہی مر چکا ہے۔ لہذا، خودکشی کی کوشش قابل سزا عمل ہے۔ تعزیرات پاکستان کے مطابق، خودکشی کی کوشش کی سزا ایک سال قید یا جرمانہ یا دونوں سزا ہوسکتی ہیں۔

خود کشی کی کئی اقسام ہیں:

پاکستان میں اسسٹڈ خودکشی یعنی کسی فرد کی خود کشی میں مدد کرنا۔ طبی اور قانونی لحاظ سے، اس کو آسان موت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس طرح کے زیادہ تر معاملات اسپتالوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جہاں ایک مریض دائمی یا عارضی بیماری کی وجہ سے ناقص معیار زندگی جاری رکھنے پر راضی نہیں ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایتھوسنیا غیر قانونی ہے۔ اور ڈاکٹروں اور افراد کو ایسی خودکشی میں مدد کرنے پر اسی کے مطابق سزا دی جائے گی۔

پاکستان میں پیراسوسائیڈ (ڈر کی وجہ سے خود کشی)، پاکستان میں پیرا سوسائیڈ سے مراد وہ کوشش ہے جو کوئی خود کشی کرنے کےلیے کرتا ہے مگر نیت زندگی کا خاتمہ کرنا نہیں ہوتی۔ یہ عام طور پر فرد میں نفسیاتی مسائل اور بیماریوں کا شکار ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جس میں طبی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ غربت، بیماری یا معاشرتی عوامل اور مایوسی عام طور پر خودکشی کا سبب بنتی ہیں۔

پاکستان میں جبری طور پر خودکشی کو دوسرے لوگوں کے دباؤ کے طور پر جانا جاتا ہے، متاثرہ افراد نے خود کو ہلاک کیا ہے اس لئے کہ ان پر دباؤ ڈالا گیا تھا۔ ایسے معاملے کو ثابت کرنے کے لئے بہت سارے ثبوتوں کی ضرورت ہوگی۔

پاکستان میں قتل کی طرح اس کی تفتیش کی جاتی ہے۔ نہ صرف ایسے مجرموں کے خلاف قتل کے جرم میں عدالت میں مقدمہ چلایا جاتا بلکہ مجرمانہ سازش اور مجرمانہ سزا سے بھی دوچار ہوتا ہے۔

Check Also

Kahani Aik Deaf Larki Ki

By Khateeb Ahmad