Sunday, 22 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aslam Khan Khichi
  4. Akhir Wo Kon Log Thay (2)

Akhir Wo Kon Log Thay (2)

آخر وہ کون لوگ تھے (2)

اب شہید محمد افضل سے بھی بار بار فرمائش کی جاتی ہو گی کہ " میرے افضل " دوبارہ کچھ سنا اور آپ ﷺ بڑے فخر سے شریک محفل ہستیوں سے تعارف کراتے ہوتے ہوں گے کہ " یہ میرا افضل ھے " یہ میرا افضل " اتنے عظیم الشان تعارف پہ تو اگر کروڑوں اربوں کھربوں زندگیاں ملیں تو " شہید افضل " کی اب صرف ایک ہی خواہش ہوتی ہو گی کاش میں واپس جاؤں اور عاشقان مصطفےٰ ﷺ میرے بدن کے انگ انگ کو الگ کر کے، میری بوٹی بوٹی نوچ کے قتل کریں اور میں تاقیامت یہ عظیم الشان الفاظ سنتا رہوں۔۔۔۔۔ کہ " یہ میرا افضل ھے "

اسد رضوی صاحب کو اچانک گرفتار کیا گیا اس کے پیچھے بہت بڑی وجہ ھے۔ اتنی سنگین ھے کہ اگر اسے بیان کر دیا جائے تو بھونچال آجائے۔۔۔۔۔ سمجھنے کیلئے اتنا کافی ھے کہ ان کے گرفتار ہوتے ہی پورے ملک میں بھونچال آگیا۔ لگتا ھے پہلے سے تیاری تھی۔ یہاں کافی سوال اٹھتے ہیں کہ کیلوں سے لیس لاکھوں ڈنڈے راتوں رات کیسے تیار ہو گئے؟ کئی سو ٹن لکڑی خریدی گئی ہو گی۔ اسے کسی آرا مشین پہ لے جایا گیا۔ ڈنڈوں کی shape دی گئی ہو گی۔ پھر ان پہ کیل لگائے گئے ہوں گے جنہوں نے افضل شہید جیسے کئی اور کو بھی ادھیڑ کے رکھ دیا۔ ریاست پاکستان سے یہ سوال تو کیا جاسکتا ھے کہ یہ سب اچانک، راتوں رات کیسے تیار ہو گیا؟ اور ریاست نااہلی اور غفلت کی نیند سوئی رھی۔

کون لوگ تھے وہ جو وحشیوں کی طرح عام عوام اور پولیس والوں کو مار رھے تھے۔ تحریک لبیک کے طرز عمل کو دیکھ کے لگتا ھے پاکستان میں صرف یہی مسلمان ہیں۔ باقی ہم سب کافر ہیں اور یہ جنگ مسلمانوں اور کفار کے درمیان تھی۔ اگر قتل کرنے والے وحشیوں کے چہروں پہ نظر ڈالیں، ویڈیوز دیکھیں تو باآسانی اندازہ لگا لیں گے کہ ظلم کرنے والے ظالموں کا اسلام سے دور دور سے کوئی تعلق نہیں۔ بکھرے بال، پھٹے پرانے کپڑے، کئی مہینوں سے نہائے نہیں۔ چہرے نفرت اور وحشت سے دہشت زدہ۔۔ لگتا ھے انہیں ہدایات ھی ایسی ملی تھیں کہ جو بھی سامنے آئے، ادھیڑ ڈالو۔۔۔ کیل بھرے ڈنڈوں سے انکا قیمہ بنا دو۔۔۔ عام گاڑیاں، دکانیں، پولیس کی گاڑیاں جلا دو۔۔۔ سب کچھ جلا کے خاکستر کر دو۔

کانسٹیبل علی عمران بھی گھر کا واحد کفیل تھا علی عمران کے سر اور پسلیوں کو لاٹھیوں اور گھونسوں سے جس طرح نشانہ بنایا گیا وہ دردناک منظر کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔ کچھ حضرات اور اینکرزکہہ رہے ہیں کہ جماعت پر غلط الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو وائرل ہونے والی وہ وڈیوز دیکھنے کی ہمت کرنی چاہیے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ان ہنگاموں کے پیچھے کون تھا؟ کس نے ان کے لیے سرمایہ فراہم کیا، کس نے ٹرانسپورٹ مہیا کی، کس نے ٹارگٹ دیے، کس نے رنگین کانٹے لگے ڈنڈے فراہم کیے؟

کانسٹیبل علی عمران کو جب لاٹھیوں، ڈنڈوں اور اینٹوں سے مارا جا رہا تھا تو اس کی زبان اﷲ، رسول اور قران پاک کا واسطہ دیتے ہوئے سب سے فریاد کر رہی تھی کہ مجھے نہ مارو لیکن اسے مارنے والے ان متبرک ناموں کو سن کر بھی نہیں لرزے۔ جان کنی کی حالت میں درد سے کراہتے ہوئے علی عمران نے کہا "یاد رکھنا میری فریادیں عرش سے خالی واپس نہیں آئیں گی کیونکہ میری ہر فریاد میں وسیلۂ حضورﷺ شامل ہے"۔

کہیں عاشقان رسول ﷺ میں وہ خانہ بدوش تو شامل نہیں تھے جو لاہور اور گوجرانوالہ میں بستیوں کی صورت میں ہر علاقے میں آباد ہیں۔ حتی کہ پوش آبادیوں میں ان کے خیمے جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ خانہ بدوش قبضہ گروپوں کا Ak-47 ہوتے ہیں۔ اگر ویڈیوز کو غور سے دیکھا جائے تو انکے چہرے انہی خانہ بدوشوں کے چہرے ہیں۔ بھٹہ چوک لاہور کی لاٹھیاں برساتے 15 سے 18 سال کے لڑکوں کی ویڈیوز دیکھیں تو ایسا لگتا ھے کہ یہ سالوں سے نہائے بھی نہیں ہو گے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ھے کہ انہیں کون لایا؟ سہولت کار کون تھے؟ اس بات کا پتہ لگانا بہت آسان ھے۔ ہر خانہ بدوش کیمپ سے کچھ لوگوں کو اٹھا کر Investigate کیا جائے تو ایک دن میں ہی رزلٹ سامنے آ جائے گا۔

پاکستان میں رھنے والا ہر مسلمان سچا عاشق رسول ﷺ ھے۔ چاھے وہ شیعہ، دیو بند، سنی، وہابی یا کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔ وہ ناموس رسالت ﷺ پہ اپنا تن من، دھن، عزت، دولت، شہرت، ناموس تک قربان کرنے کو تیار رھتا ھے۔ میرا قوی یقین ھے کہ تحریک لبیک کے جو کارکنان ناموس رسالت ﷺ پہ یقین رکھتے ہیں۔ وہ کبھی قاتل نہیں ہو سکتے۔ کبھی ظالم بن کر مظلوم کی آہیں نہیں سن سکتے۔

یہ ظالم درندے باقائدہ پلاننگ کے تحت اس تحریک میں شامل کئے گئے۔ جنہوں نے دیدہ دلیری سے قتل کئے اور معصوم کارکنان کو اکسایا۔ اب یہ پتہ لگانا حکومت کا کام ھے کہ اس سازش کے پیچھے کون تھا۔ ریاست یہ تو بتا رھی کہ 4000 ٹویٹر اکاؤنٹ انڈیا سے آپریٹ کیئے جا رھے تھے لیکن پاکستان میں انڈیا کا سہولت کار کون تھا۔ اسکا پتہ لگانا تحریک لبیک اور ریاست پاکستان کا کام ھے۔

ہم اکثر پولیس اور ڈاکٹرز سے شاکی رھتے ہیں۔ یہ درست ھے کہ پولیس کبھی ساری انسانی اقدار کو پامال کرتے ہوئے غریبوں پہ ظلم کرتی ھے۔ یہ کاروائی کسی Frustrated Person کی کارستانی ہوتی ھے۔ اسے بنیاد بنا کے پوری پولیس کو برا نہیں کہا جا سکتا۔ پولیس کے حصے میں ہزاروں شہید ہیں۔ سردی۔ گرمی، بارش گرم لو کے دوران جب ہم گھروں میں دبکے بیٹھے ہوتے ہیں تو یہ جوان ڈیوٹی کر رھے ہوتے ہیں۔ جب ہم اپنے گھروں میں سکون کی نیند سوتے ہیں تو یہ ہماری حفاظت کیلئے جاگ رھے ہوتے ہیں۔ یہ اگر صرف ایک دن ہم سے روٹھ جائیں تو صرف ایک ہی دن میں ہم یا ہمارا بھی کوئی ہمیشہ کیلئے روٹھ جائے۔

ڈاکٹرز سے لاکھ گلے شکوے سہی لیکن کبھی کورونا وارڈز میں جا کے دیکھئے۔۔ جب آپ کے اپنے موت کے ڈر سے آپ سے دور بھاگ رھے ہوتے ہیں تو یہ معصوم فرشتے آپ کے اوپر جھک کے آپ کو مسکراہٹ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کو تھپکی دے کر کہتے ہیں کہ آپ ٹھیک ہو۔۔۔ بس دو چار دن میں آپ کو گھر بھیج دیں گے۔ یہ الفاظ آپ کے بدن میں بجلی بھر دیتے ہیں اور آپ موت کو شکست دینے کی کوشش کرتے ہیں اور کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ میں نے نوجوان ڈاکٹرز کو 18 گھنٹے کورونا وارڈ میں تندہی سے ڈیوٹی کرتے دیکھا ھے۔ انہیں اپنی جان کی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ آپ کی جان کی پرواہ ہوتی ھے اور ہماری جان بچاتے بچاتے سینکڑوں ڈاکٹرز نرسز اور انکی فیملیز اپنی جان قربان کر چکی ہیں۔

ڈاکٹرز نے دل و جان سے پاکستان کی خدمت کی ھے۔ میں ملک کے تمام ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکل سٹاف، سویپرز کو سلیوٹ پیش کرتا ہوں اور کھلے دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ آپ نے ہمارے تمام حقوق پورے کیئے لیکن ہم جتنی بھی کوشش کر لیں، آپ کے حقوق پورے نہیں کر سکیں گے۔ گذشتہ ہفتے پاکستان میں جو کچھ ہوا۔ وہ انتہائی دہشت ناک تھا جو پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بھی بنا۔ کافروں کو ہماری فہم و فراست کا اندازہ ہو گیا۔ توہین سینکڑوں میل دور ہوئی اور بجائے ہم ریاست کے ساتھ کھڑے ہونے کے، اسلامی ملکوں کو ساتھ ملانے کے۔۔۔ اپنوں کے ہی گلے کاٹنے لگ گئے اور یہی وہ چاہتے ہیں کہ ہم آپس میں دست و گریبان رھیں۔

یہ واقعہ تمام معزز مذہبی رہنماؤں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ھے کہ وہ نوجوان نسل کی کیسی تربیت کر رھے ہیں جو اپنے وطن سے وفادار نہیں جبکہ وطن سے وفاداری اور محبت ایمان کا لازم جزو ھے۔ بحیثیت جہاد ہم سب پہ لازم ھے لیکن جو لڑائی کافروں سے لڑی جائے " وہ جہاد ہوتا ھے " اپنے وطن میں اپنے ہی بہن بھائی کے ساتھ ظلم و ستم دہشتگردی اور شر انگیزی کے زمرے میں آتا ھے۔ بروز قیامت ہماری امامت فرمانے والے ہی ہمارے اعمال کے ذمہ دار ہوں گے۔

Check Also

Abhi To Party Shuru Hui Hai

By Prof. Riffat Mazhar