Saas Aur Bahu
ساس اور بہو
عورت کو اللہ نے ہمارے معاشرے میں ایک اہم مقام دیا ہے۔ اس لئے عورت کا کردار بھی ہمارے معاشرے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن عورت کو شاہد اس کا ٹھیک طرح سے اندازہ ہی نہیں، اور اکثر عورتیں آپسی جھگڑے میں اپنے اس مقام کی وقعت کو سمجھ نہیں پاتی۔ چونکہ عورت اپنی زندگی کے اسٹیج پر مختلف کرداروں سے گزرتی ہے کبھی ماں، بیٹی، بہو، ساس اور اسی طرح بے شمار کردار ہیں . جو عورت ادا کرتی ہے۔ لیکن یہ جو خاص کر میں نے مینشن کیے، یہ کردار ہر عورت کی زندگی میں نمایاں ہوتے ہیں۔
عورت جب ایک ماں ہوتی ہے۔ تو وہ اپنے بچوں کے لیے دنیا کی سب سے مضبوط پناہ گاہ اور زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتی ہے۔ عورت ماں کے روپ میں اپنے بچوں کی محبت میں دنیا کی ہر طاقت سے ٹکرا جاتی ہے۔ اور ماں عورت کی زندگی میں ایک ایسا کردار ہے۔ جو دنیا میں باقی سب کرداروں سےعورت کو خداوند کے جانب سے منفرد، خوبصورت اور اونچا مقام فراہم کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس جب عورت کا کردار ساس کے روپ میں آتا ہے۔ تو یہاں پر اس کے روپ میں وہ پیار ومحبت کے رنگ اور وہ شفقت بھرا لہجہ نظر نہیں آتا، جو ایک ماں کے کردار میں ہم لوگوں کو دکھائی دیتا ہے۔
کیونکہ عورت جب ایک ماں ہوتی ہے تو اپنی بیٹی کے لیےوه سب کچھ تصور کرتی ہے۔ جس سے اس کی بیٹی کی زندگی میں صرف خوشیاں ہوں اور غم کی پرچھائیں بھی اس کی زندگی کے قریب نہ آئے۔ وہ چاہتی ہے، کہ اس کی بیٹی کو ایسا گھر اور ایسا ہمسفر ملے۔ جہاں پر اس کی زندگی کے دن خوشی اور آسانی سے کٹے۔ اور اس کے لیے وہ ہزاروں جتن کرتی ہے۔
لیکن ایک عورت جب ساس بنتی ہے۔ اور کسی دوسرے کی بیٹی کو بیاہ کر اپنے گھر میں لاتی ہے۔ تو معاملہ بالکل اس کے برعکس ہوتا ہے۔ جو ماں کے روپ میں وہ اپنی بیٹی کے لیے ادا کرتی ہے۔ جو عورت بہو کے روپ میں اس کے گھر آتی ہے۔ اپنے بیٹے کی بیوی کی حیثیت سے اس کا وجود تو تسلیم کر لیتی ہے۔ لیکن یہ بات اسے قابل قبول نہیں ہوتی۔ کہ وه اس کے گھریلوں معاملات میں کسی بھی قسم کی دخل اندازی کریں۔ اور یہاں سے پھر ساس اور بہو کی سرد جنگ کا آغاز شروع ہو جاتا ہے۔
پھر گھر کے معاملات بگڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور یہی وہ وجہ ہے جہاں پر عورت چونک جاتی ہے۔ اکثروبیشتر عورتیں ساس کے روپ میں وہ کردار ادا نہیں کر پاتی۔ جو ایک ماں اپنی بیٹی کے لئے ادا کرتی ہے۔ یہاں پر اگر عورت بہو کے ساتھ بیٹی جیسے معاملات رکھے تو اس کا گھر جنت کی تصویر پیش کرے گا۔ جب عورت ایک بیٹی ہوتی ہے۔ تو وہ بھی اپنی ماں کے لیے محبت بھرے جذبات اور احساس رکھتی ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے کسی بھی رویے یا حرکت سے اس کی ماں کو کوئی تکلیف یا ضررنہ پہنچے۔
لیکن جیسے ہی وہ بہو کا روپ دھارتی ہے۔ تو اپنی ساس کے لیے وه جذبات اور محبت بھرے احساسات ماں کے گھر چھوڑ آتی ہے۔ اور ساس کو ایک حریف کی طرح دیکھتی ہے۔ خاوند کو اپنی ملکیت سمجھتی ہے۔ جس کو اس کی ساس نے ساری زندگی اپنے سینے سے لگا کر جوانی تک پہنچایا ہوتا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ چند گھڑیوں کی محبت کی بدولت وہ اپنے خاوند پر مکمل قابو پا کر قابض ہو جائے۔ یہ بھی ایک بنیادی وجہ ہے ساس اور بہو کے درمیان خراب معاملات کی۔ اس لیے اکثر گھر میدان جنگ کا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر یہاں عورت اپنی ساس کے ساتھ ماں والا رویہ اختیار کرے گی تو اس کا گھر کسی جنت سے کم نہ ہوگا۔
میرے خیال اور ناقص سوچ کے مطابق اگر عورت اپنی زندگی کے اسٹیج کے ان کرداروں کو اچھی طرح اور انصاف کے ساتھ نبھائے۔ تو ہمارے معاشرے میں بہت سی برائیاں جو گھریلوں معاملات کی وجہ سےجنم لیتی ہیں، خود بخود ختم ہو جائیں گی۔ ہمارے معاشرے اور ہمارے گھر جنت جیسی تصویر پیش کریں گے۔ میری دعا ہے اللہ تعالی ہم سب کو اپنی زندگی کے کرداروں کو اچھی طرح نبھانے اور ان کے ساتھ انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔