Pardes Ki Zindagi
پردیس کی زندگی
پردیس میں پردیسی کی زندگی کے کن پہلوں کے بارے میں لکھوں، کیونکہ پردیسی کی زندگی کا ہر پہلوں ہی اتنا دردناک اور اپنے دیس کی مٹی اور لوگوں کی محبت کے جام کیلئے پیاسا ہے۔ جس کو شاید ایک پردیسی ہی محسوس کر سکتا ہے۔ میں نے ماؤں کے لاڈلے بیٹے اور بہنوں کے خوبصورت بھائیوں کو ایسی حالت میں دیکھا ہے۔ جس سے دل میں درد کی ایک ٹیس سی اٹھ جاتی ہے۔
دل و دماغ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ لاڈوں میں پلے نوجوان جنہوں نے کبھی اپنے ہاتھ سے پانی تک نہ پیا ہوگا۔ اکثر صبح بغیر ناشتے اور چائے کے کاموں پر نکل جاتے ہیں۔ اور کام کے دوران جب دوپہر کے کھانے کے لئے بیٹھتے ہیں۔ تو ساتھ لایا دوپہر کا ٹھنڈا کھانا کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایک گھنٹے کی بریک میں کھانا، نماز اور تھوڑے سے آرام کے بعد دوبارہ اپنے کام پر لگ جاتے ہیں۔
صبح چار بجے سے اٹھ کر نہا دھو کر اپنے لئے کھانے کا ٹفن تیار کرنے کے بعد گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک گھنٹے کی طویل مسافت کے بعد کام پر پہنچتے ہیں۔ اور شام کو تھک ہار کر اسی طویل سفر کے بعد رہائش گاہوں میں پہنچتے ہیں۔ پہنچتے ہی دوبارہ رات کے کھانے کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ نہا دھو کر اور کھانے سے فارغ ہو کر اپنے بستروں پہ لیٹتے لیٹتے رات کی تقریبا دس بج جاتے ہیں۔
دراصل پردیس ایثار اور قربانی کا وہ نام ہے۔ کہ انسان اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ کر صرف اور صرف اپنے گھر والوں کی خوشیوں کو اپنے سامنے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات پردیسی اس ایثار اور قربانی میں اپنا ایک وقت کا کھانا بھی قربان کر دیتے ہیں۔ اکثر لوگ سوچتے ہیں جب کوئی پردیس چلا جاتا ہے یا تو وہ مغرور ہو جاتا ہے۔ یا پھر وہ رشتہ داروں، دوستوں اور اپنوں کو بھول جاتا ہے۔ جبکہ ان سب نے صرف تصویر کا ایک ہی رخ دیکھا ہوتا ہے اور وه اس کی ظاہری ٹھاٹھ باٹھ ہوتی ہے۔
پردیس کی زندگی ایک کڑا امتحان ہے۔ پردیس میں پل پل آپ کو ایک امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی کمپنی میں کمپنی کے مالک مینیجر، سپروائزر کی صورت میں، تو کبھی کمپنی میں کام کرنے والے کلیکس کی صورت میں اور کبھی ساتھ رہنے والے روم میٹز کی صورت میں، یہ سارا وقت اتنا ڈیپریشن اور اعصاب شکن ہوتا ہے۔ اس میں پردیسی خود اپنے آپ کو بھول جاتا ہے تو بھلا ایسے میں وہ کسی اور کو کیا یاد کر پائے گا۔
اس کے باوجود بھی ہر پردیسی کی کوشش ہوتی ہے۔ کہ اپنے بہن بھائیوں، ماں باپ اور بیوی بچوں کے علاوہ دوست احباب کی خواہشات کا بھی خیال رکھ سکے۔ اس کوشش میں وہ کھبی تو کامیاب ہوجاتا ہے اور کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی ناکام رہ جاتا ہے۔ بہرحال اس کی کوشش یہی ہوتی ہے۔ جو بھی خواہش کا اظہار گھر والوں کی طرف سے یا پھر کسی دوست احباب کی طرف سے ہوں اسے ہر صورت پورا کیا جائے۔
اس لئے کہ تقریبا ہر پردیسی اس قدر نرم مزاج اور رحم دل ہوتا ہے۔ وه نہیں چاہتا کہ کسی کے بھی دل کو کسی بھی قسم کا رنج و غم اس کی وجہ سے پہنچے۔ کیونکہ پردیس اس جگہ کا نام جہاں ہر پتھر دل موم بن جاتا ہے۔ اکثر پردیسی یہ کوشش کرتے ہیں جب کبھی اس کا بھائی یا اس کا کوئی دوست کہتا ہے کے مجھے بھی اپنے پاس بلا لے۔ تو وہ ٹال مٹول سے کام لیتا ہے۔ اس لیے کہ وہ نہیں چاہتا کہ جس طرح کی زندگی وہ جی رہا ہے۔ کوئی دوسرا بھی اس امتحان سے گزرے۔
ہر پردیسی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے بہن بھائی اچھا کھائیں اچھا پہنے، وه سوچتا ہے کہ اگر اس کی ان تکلیفوں کے باعث باقیوں کی زندگی سکون اور خوشی سے کٹتی ہے۔ تو پھر ان تکلیفوں کو جھیلنے میں وه خوشی محسوس کرتا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ پردیس کی زندگی بہت کٹھن اور ایک مشکل زندگی ہے۔ اور میری دعا ہے کہ اللہ ملک پاکستان کو اتنی ترقی دے کہ کہ کوئی بھی پاکستانی بلکہ کوئی بھی انسان اپنے پیاروں سے جدا نہ ہو پائے۔ وه اس لئے کہ پردیس انسان کی آدھی زندگی کھا جاتا ہے۔ کیونکہ پردیس نام ہے اپنے جذبات، احساسات اور خوشیوں کو قربان کرنے کا۔ میری دعا ہے۔ اللہ ہر انسان کو پردیس کی زندگی سے بچائے اور اپنے ملک میں ہی رزق حلال عطا فرمائے آمین۔