Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asim Khan
  4. Maa Ki Duaon Ka Asar

Maa Ki Duaon Ka Asar

ماں کی دعاؤں کا اثر

ماں دنیا کا خوبصورت لفظ، احساس، تصور اور رب کائنات کی سب سے خوبصورت تخلیق ہے جو انسانوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے اس خوبصورت نعمت سے اپنی دوسری مخلوقات کو بھی نوازا ہےجانور، چرند، پرند حالانکہ اللہ تعالی کی تمام مخلوقات ماں کی ممتا کے خوبصورت محبت بھرے رنگوں میں رنگی نظر آتی ہے جس طرح رب ذوالجلال نے ماں کے رتبے کو اونچا رکھا ہے تو اسی طرح ماں کی دعاؤں میں بھی ایسا اثر رکھا ہے کہ جب بھی ماں دعاؤں کیلئے ہاتھ اٹھاتی اور پھیلاتی ہے تو وہ دعا آسمانوں کی ساری رکاوٹوں کو توڑتی ہوئی سیدھا رب کائنات کے عرش سے جا ٹکراتی ہے۔

ماں کی دعاؤں کے اثر کا ایک سچا واقعہ جو موسی علیہ السلام کے دور میں رونما ہوا آپ سب کی نظر کرنانا چاہتا ہوں موسی علیہ السلام جو اللہ تعالی کے بہت برگزیدہ اور جلیل القدر پیغمبر تھے اور رب ذوالجلال کی طرف سے کلیم اللہ کے لقب سے نواز گئے تھے یعنی اللہ سے کلام کرنے والا موسی علیہ السلام اکثر خالق کائنات سے ہم کلام ہونے کے لیے کوہ طور پر جایا کرتے تھے ایک دن موسیٰ علیہ السلام کے دل میں خیال آیا کیوں نا سلطان افلاک کے حضور درخواست کی جائے کہ جنت میں میرا ساتھی کون ہوگا جب موسی علیہ السلام کی جانب سے اس بابت رب کریم سے درخواست کی تو شہنشاہ کائنات نے فرمایا کہ اے موسی آپ کے گاؤں کا فلاں قصاب جنت میں آپ کا ساتھی ہوگا۔

جب موسی علیہ السلام واپس جانے لگے تو دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ اس قصاب سے ملا جائے اور اس راز کے بارے میں جاننے کی کوشش کی جائے کہ آخر اس کے ایسے کون سے خاص اعمال ہیں جو مالک جہاں نے اسے جنت میں میرا ساتھی بنایا ہے چنانچہ اسی کشمکش میں موسی علیہ السلام ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس قصاب کی دکان تک پہنچ گئے پہنچتے ہی وہاں بیٹھنے اور اس قصاب کے ساتھ وقت گزارنے کی اجازت طلب کی اجازت ملنے پر موسی علیہ السلام نے سارا دن اس قصاب کے ساتھ گزارا لیکن کچھ ایسا خاص عمل نہ دیکھا۔

جب سارا دن بیت جانے کے بعد قصاب اپنی دکان بند کر کے اور ساتھ میں تھوڑا سا گوشت لے کر گھر واپس جانے لگا تو موسی علیہ السلام نے بھی ساتھ گھر آنے کی درخواست کی قصاب موسی علیہ السلام کو بطور مہمان گھر ساتھ لے آیا۔ قصاب موسی علیہ السلام کو گھر میں بیٹھا کر خود گھر کے کاموں میں جت گیا اور جو گوشت ساتھ لے کر آیا تھا اس کی صاف صفائی اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے کے بعد پکانے کی غرض سے آگ پر چڑھا دیا ساتھ ہی روٹی بنانے کے لئے آٹا گوندھنے لگا غرض کہ گوشت اور روٹی تیار کرنے کے بعد پلیٹ میں گوشت سالن ڈالا اور اس میں روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھگو کر گھر کے ایک کمرے میں داخل ہوگیا۔

چنانچہ موسی علیہ السلام بھی یہ دیکھنے کیلئے کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے اس کے پیچھے پیچھے ہو لیے موسی علیہ السلام کیا دیکھتے ہیں کہ کمرے میں ایک بڑھیا چارپائی پر لیٹی ہوئی ہے قصاب نے اپنے ہاتھوں کے سہارے اس بڑھیا کواٹھایا اور پھر روٹی کے ٹکڑے جو سالن میں بھگوئے تھے اس بڑھیا کو کھلانے لگا جب بڑھیا کھانے سے فارغ ہوئی اور جیسے ہی قصاب نے اس بڑھیا کا منہ صاف کیا تو اسی دوران بڑھیا قصاب کے کان میں کچھ بڑبڑانے لگی مگر قصاب نے مسکرا تے ہوئے اس بڑھیا کو پھر سے چارپائی پر لیٹا دیا۔

جب قصاب اس سارے معاملے سے فارغ ہو کر موسی علیہ السلام کی طرف مہمان نوازی کی غرض سے آیا تو موسی علیہ السلام نے پوچھا کہ یہ بڑھیا کون ہے اور یہ ماجرہ کیا ہے تو قصاب کہنے لگا یہ بڑھیا جو آپ دیکھ رہے ہیں یہ میری ماں ہے اور یہ بہت عرصہ سے بیمار ہے روز میں اپنے کاموں سے فارغ ہوکر اسی طرح اس کی خدمت کرتا ہوں کھانا کھلاتا ہوں مگر ہمیشہ کھانا کھانے کے بعد جب میں اپنی ماں کو دوبارہ چارپائی پر سلانے لگتا ہوں تو میری ماں میرے کان میں کہتی ہے کہ اللہ تعالی تمہیں جنت میں موسی کا ساتھی بنائے تو میں یہ سن کر مسکرا دیتا ہوں۔ اور سوچتا ہوں کہاں میں ایک عام سا قصاب اور کہاں موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالی کے جلیل القدر پیغمبر۔

موسی علیہ السلام نے اس قصاب کو کہا کہ میں ہی موسی ہوں اور اللہ تعالی نے آپ کی ماں کی دعا قبول کرتے ہوئے آپ کو جنت میں میرا ساتھ بنا دیا۔ آج ہمارے معاشرے میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو اپنی جنت کو اپنے ہی پیروں تلے روند کر جنت کی آرزو میں پیر وفقیر کے دروں اور ان کے مزاروں پر بھٹک رہے ہوتے ہیں جبکہ اصل جنت کو وہ اپنے ہاتھوں سے گنوا بیٹھتے ہیں خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی مائیں زندہ ہیں اور اس سے بھی زیادہ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنی ماؤں کی خدمت کر کے دنیا و آخرت دونوں میں اپنے لئے جنت ماں کی دعاؤں کی شکل میں حاصل کر لیتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ اپنی ماؤں کی خدمت کا ایسا حق ادا کریں کہ دنیا میں خوبصورت زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی جنت کے حق دار بن جائیں آمین۔

Check Also

Imran Ko Kon Bacha Sakta Hai?

By Najam Wali Khan