Har Insan Beemar Hai
ہر انسان بیمار ہے
بیماریاں انسانی زندگی کا ایسا حصہ ہیں جن کا اگر وقت پر مداوا نہ کیا جائے تو اکثر و بیشتر یہ بیماریاں انسانی زندگی کا چراغ گل کر دیتی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ جب انسان کو اس بات کا ادراک ہوجائے کہ وہ کسی بیماری کا شکار ہو رہا ہے تو وقت پر ڈاکٹر سے رجوع کرکے اس بیماری کا علاج شروع کر دے۔ وگرنہ بیماری مکمل طور پر جسم پہ حاوی ہو کر طاقتور بن جائے گی۔ اس وقت تک علاج تو ممکن ہو مگر شاہد ڈاکٹر بھی اس بیماری کا سدباب نہ کر سکے۔ انسانی جسم کے ساتھ ساتھ انسانی روح بھی بیماریوں کا شکار ہوتی رہتی ہے جسم کی بیماریاں تو صرف جسم کے خاتمے کا باعث بنتی ہیں۔ مگر روح کی بیماریاں جسم کی بیماریوں سے کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک ہوتی ہیں۔ کیونکہ روح کی بیماریوں کا تعلق بالواسطہ انسانوں کے گناہوں سے وابستہ ہوتا ہے۔
اب یہ انسان کے گناہوں پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کے گناہوں کا مرتکب ہو رہا ہےاور اس کی روح ان گناہوں کی وجہ سے کس حد تک بیمار ہو چکی ہے۔ روح کی بیماریوں کے حوالے سے بحیثیت مسلمان تقدیر کی لکیریں غیر مسلموں کے مقابلے میں ہم مسلمانوں پر تھوڑی زیادہ مہربان ہیں۔ وہ اس لئے کہ جسم کی بیماریوں کے علاج تک رسائی تو شاید ہر انسان کی دسترست میں ہو مگر روح کی بیماریوں کا علاج مسلمانوں کو صرف اسلام کی بدولت ہی میسر ہے۔
جس کمیونٹی اور معاشرے میں میری زندگی کا سفر رواں دواں ہے تو وہاں کچھ مسلمان دوستوں کے علاوہ میرے دوستوں کی لسٹ میں ایک آدھ غیرمسلم بھی درج ہیں۔ اور ان میں بھی ایک آدھ ایسے ہیں جن کی انسانی خوبیاں دیکھ کر مجھے رشک آتا ہے۔ اور میں دل ہی دل میں اللہ سے دعاگو ہوتا ہوں کہ اے میرے رب انہیں دائرہ اسلام میں داخل فرما۔
اکثر اوقات ان سے مختلف موضوعات پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ ایک دن دوران گفتگو میں نے موضوع کا رخ کچھ یوں موڑا کہ آپ لوگ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ لوگوں کے مذہب میں بھی شراب کو نا پسند اور نا جائز قرار دیا گیا ہے۔ تو آخر کیا وجہ ہے اس کے باوجود بھی آپ لوگوں کی کمیونٹی اسے مشروب کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
تو اگلے ہی لمحے اس کا جواب میرے لیے بجلی کے کرنٹ کا جھٹکا ثابت ہوا۔ اس نے جواب میں کہا کہ جب ہماری روح اندر سے بے چین اور بے قرار ہوتی ہے تو اس کی بے قراری اور بے چینی کو ختم کرنے کے لئے ہم شراب کا سہارا لیتے ہیں تھوڑی دیر تک تو ہم نشے میں مدہوش سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ مگر جیسے ہی نشے کا اثر ٹوٹتا ہے تو ہماری روح پہلے سے زیادہ بے قرار ہو کر چیختی اور چلاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں شراب کی لت ایسی لگتی ہے کہ چھوڑنے سے بھی یہ پھر نہیں چھوٹتی۔
اس کے اس جواب نے مجھے دل ہی دل اللہ کا شکر کرنے پر مجبور کیا کہ اس نے ہمیں مسلمان پیدا کرکے دنیا کی عظیم نعمت سے نوازا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ باوجود اللہ کی اس عظیم نعمت کے ہوتے ہوئے بھی ہماری روحیں دن بدن خطرناک حد تک بیمار ہوتی جا رہی ہیں جبکہ علاج کی ساری سہولتیں بھی میسر ہیں۔
کیا ہم نے آج تک اس بارے میں اپنا محاسبہ کیا اور دیکھا ہے۔ کہ آخر وجہ کیا ہے۔ میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خود بیماری کا شکار ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی بیماریوں پر سوال اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ پہلے مجھے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ میری روح تو خود میرے گناہوں کی وجہ سے بستر مرگ پر پڑی ہے۔ مجھے تو خود علاج کی ضرورت ہے۔
میں کون ہوتا ہوں دوسروں کے گناہوں پر سوال اٹھانے والا جبکہ میں خود گنہگار ہو۔ خدارا دوسروں کے گناہوں پر سوال اٹھانا چھوڑ دیں زندگی کی اس تھوڑی سی مہلت میں اللہ کی دی ہوئی عظیم نعمت سے فائدہ اٹھا کر اللہ کے حضور پیش ہونے سے پہلے اپنی روح کو گناہوں کی بیماریوں سے شفایاب کرلیں۔ اس سے پہلے کہ زندگی کا یہ چراغ گل ہو جائے۔