Dilkash Mausam Aur Haftawar Mela
دلکش موسم اور ہفتہ وار میلہ
غضب کی گرمی کے اس موسم میں آج صبح جب موسم سے سامنا ہوا تو گہرے سیاہ بادلوں نے آسمان کو اپنی سیاہ کالی چادر میں پوری طرح لپٹ رکھا تھا۔ ساتھ ہی اس خوشگوار موسم نے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کو ہر سو پھیلا رکھا تھا۔ جس کی تازگی سے انسانوں کے ساتھ ساتھ ہر شے جسے اللہ نے زندگی بخشی ہے چمک اٹھی تھی۔
اس دلکش و دلفریب موسم نے ماضی کی یادوں کے ان خوبصورت جھروکوں میں دھکیل دیا جہاں یادوں کی ایک طویل البم دماغ کی میموری میں سمائی ہوئی ہے۔ ایسا ہی ایک خوبصورت دن جس میں کالے گھٹا ٹوپ بادلوں اور یخ بستہ ہواؤں کا راج تھا موسم کی خوبصورتی کھیتوں میدانوں پہاڑوں کی ہریالی اور سبزہ زار جنت جیسا منظر پیش کر رہے تھے۔
میں اور میرے کزن اپنے شہر بلی ٹنگ میں سجے ہفتہ وار میلے کی تیاری کر رہے تھے موسم کی اس دلکشی اور دلفریبی نے ہمیں وقت سے پہلے ہی میلے کی جانب چلنے پر مجبور کر دیا۔ ساتھ ہی عیدالاضحیٰ کی بھی آمد تھی تو مال مویشی کی خرید و فروخت نے میلے کی رونق کو مزید پرکشش بنا رکھا تھا۔ جو ہر چھوٹے بڑےاور خاص و عام کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔
جیسے ہی ہم نے ہائی سیکنڈری سکول بلی ٹنگ کے میدان میں قدم رکھا تو میلے کی رونقیں ہمارا استقبال کر رہی تھی۔ کہیں چوہے مار دوا کو بیچنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھی تو کہیں لوگ جادوگر کے گرد جمع جادو سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کہیں کبوتر باز اپنی کبوتروں کو بیچنے کے لئے کبوتروں کے گن گا رہے تھے تو کہیں مرغا بازوں کا رش لگا ہوا تھا۔
کہیں سستے بازار کا سٹال لگا ہوا تھا جہاں ہر وہ چیز دستیاب تھی جس نے خریداروں کو مقناطیسی کشش کی طرح اپنی طرف کھینچ رکھا تھا کیونکہ یہاں ہر چیز عام بازار کی بنسبت کچھ تھوڑے بہت سستے داموں میں دستیاب تھی۔ تو وہی گنے کے جوس اور گڑ کے شربت نے بھی متوالوں کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا تھا۔ جہاں کچھ نیم حکیموں نے بھی اپنی جادوئی آواز سے بہت سے ایسے بیماروں کو اپنی جانب راغب کر رکھا تھا جوحقیقتاً اس طرح کی بیماریوں کو بتانے میں ہچکچاتے اور چھپاتے ہیں۔
میں اور میرے کزن آگے بڑھتے گئے اور میلے کی رونقوں سے لطف اندوز ہوتے گئے چلتے چلتے مال مویشی کی جگہ پر پہنچ گئے۔ جہاں مال مویشی کی خرید و فروخت کے دلچسپ مناظر دیکھنے کو ملے اور بیچنے اور لینے والوں میں تھوڑی تکرار اور بارگیننگ کے بعد سودے طے پا رہے تھے۔ مگر مال مویشی لینے والی پارٹیاں بیچنے والی پارٹیوں کو اپنا مال ہینڈاور کرنے کے لیے اپنی مرضی کے مطابق میلے سے باہر جگہ کا انتخاب کر رہی تھی۔ اور اس کی وجہ صرف میلے کا ٹیکس تھا۔
میں اور میرے کزن میلے کی ان رونقوں میں اس قدر محو تھے کہ ہمیں وقت کا اندازہ ہی نہ ہوا اور موسم بھی اپنی خوبصورتی کی انگڑائیاں لے رہا تھا۔ موسم کی انگڑائیوں میں بارش کی رم جھم شروع ہو چکی تھی۔ میں اور میرے کزن میلے کی ان رونقوں کو بالکل بھی الوداع نہیں کہنا چاہتے تھے۔ مگر بارش اور ہوا کے خوبصورت طوفان نے ہمیں واپسی کی راہ دکھائی با دل نخواستہ واپس اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوئے۔ اور اس طرح یہ خوبصورت دن یادوں کا حصہ بن گیا جو آج موسم کی دلکشی نے لفظوں میں پرو دیا۔
میری دعا ہے بلی ٹنگ کا یہ ہفتہ وار میلہ اپنی تمام تر رونقوں اور بہاروں کے ساتھ شادوآباد رہیں اور مجھے امید ہے یہ آج بھی اسی پرکشش انداز میں اپنے چاہنے والوں کی چاہت سے پر رونق اور بھرا ہوا ہوگا۔