Corona Waba Ya Phir Shaitani Sazish
کرونا وبا یا پھر شیطانی سازش
کرونا ایک ایسی پراسرار وبا اور وائرس ہیں .جسے تقریبا ایک سال ہو گیا ہے۔ لیکن اب تک دنیا بھر کے سائنسدان اور ڈاکٹرز کو یہ ہی معلوم نہ ہو سکا! کہ کرونا وائرس اصل میں ہے کیا؟ اور یہ کہاں سے، کیسے، اور کس چیز سے پیدا ہوا؟ ابتدائی دور میں اس کی وجہ دسمبر 2019 میں چین کے شہر وہان کی ایک (Animal market) یعنی جانوروں کے بازار اور چمگادڑ کے صوپ سے پیدا ہونے والا وائرس اور اس سے عالمی وبا پوری دنیا میں پھیلنے کی وجہ بتائی گئی۔ اور دنیا بھر کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس کے چرچے ہونے لگے۔ اور اسے نہایت ہی خطرناک اور پراسرار وبا قرار دے دیا گیا۔
دسمبر اور جنوری 2019 میں سوشل میڈیا پر مختلف قسم کے فلمی سین اور اسی طرح آرٹیفیشل سین کے ذریعے لوگوں میں خطرناک حد تک خوف پھیلایا گیا۔ جس میں یہ ظاہر کیا گیا کہ یہ وبا سیکنڈز اور منٹوں میں انسانی زندگیاں نگل رہی ہے۔ اور پوری دنیا میں اس حد تک خوف و ہراس پھیل گیا کہ پوری دنیا کا نظام کہیں مہینوں اور ہفتوں تک سوائے چند ذرائع کے علاوہ (Lockdown) میں تبدیل ہوگیا۔ چین سے شروع ہونے والی اس وبا نے تو چین میں اتنی تباہی نہیں پھیلاہی۔ مگر میڈیا کے مطابق سب سے زیادہ یورپ اور امریکہ اس وبا سے متاثر اور اس کا شکار ہوئے۔
یورپ اور امریکہ میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں لوگ موت کی نیند سونے لگے جس کی وجہ بھی یہی خطرناک وبا بتائی گئی۔ اور اس وبا کی منتقلی کی جو وجوہات بتائی گئی وہ بھی بہت زیادہ خطرناک اورانسان کے خوف و ہراس میں تشویش ناک حد تک اضافہ کرنے کے لئے کافی تھے۔ یعنی متاثرہ شخص جو وائرس کا شکار ہو چکا ہے یا تھا۔ کسی بھی چیز کو چھونے سے وائرس اس جگہ آٹھ سے دس گھنٹے تک منتقل ہو کر زندہ رہ سکتا ہے۔ اور اس نقطہ نظر سے دنیا کا کوئی شخص بھی اس وبا سے محفوظ نہیں رہ سکتا ہے یا تھا۔
کرونا وائرس عالمی وبا اور وائرس ہے جو دنیا بھر کے ساتھ ساتھ یہ پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں بھی پھیلا اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اس وائرس وبا کا شکار ہوئے۔ چونکہ میں اس وبا کا شکار اس وقت ہوا جب یہ اپنے عروج پر تھی۔ ہماری کمپنی کی کچھ لوگوں کو معمولی بخار نزلہ زکام کی شکایت ہوئی۔ جب ان کا ٹیسٹ ہوا۔ تو وہ کورونا وائرس کا شکار ہو چکے تھے۔ اسی وجہ کے چلتے ہم سب کا بھی ٹیسٹ ہوا۔ کیوں کہ متاثرہ لوگ ہمارے کولیک اور دوست تھے۔ اور ہمیں بھی کورونا وائرس کا شکار بتایا گیا۔
اور تقریباً چالیس دن تک ہم لوگوں کو اکیلے بند کر دیا گیا نہ کوئی ہم سے ملتا اور نہ ہمیں کسی سے ملنے کی اجازت تھی دروازے پر کھانا رکھ دیا جاتا اور ہم اٹھا کر کھا لیتے تھے۔ ہماری حالت اس مجرم جیسی ہو گئی تھی۔ جس کا کوئی قصور بھی نہ ہو لیکن عدالت نے پھر بھی پھانسی کا پھندا اس کے لئے تجویز کردیا ہو۔ ان چالیس دنوں میں سب لوگوں کو اللہ کے فضل و کرم سے سردرد کی شکایت بھی نہیں ہوئی۔ اور نہ ہمیں کوئی میڈیسن دی گئی نہ کسی ہسپتال میں ایڈمٹ کرایا گیا اور نہ ہی کسی ڈاکٹر نے ہمیں چیک کیا بس دو سے تین دفعہ ٹیسٹ کرایا گیا۔ اور آخر میں نیگیٹو آنے کی صورت میں ہمیں آزاد کر دیا گیا۔
اس طرح پاکستان میں بھی میرے کئی دوست ہے۔ جن سے میرا رابطہ ہوا۔ جن میں سے میرے ایک دوست نے مجھے کہا کہ میرے والد صاحب کی حالت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی اور اس کی وجہ شوگر تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں اسے ہسپتال لے گیا۔ اور میرے والد صاحب نے ہسپتال ہی میں زندگی کو الوداع کہہ دیا۔ پھر اس کے بعد اصل معاملہ شروع ہوا جب ہم اپنے والد صاحب کو گھر لے جانے لگے تو ڈاکٹرز نے ہمیں لاش دینے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ یہ ایک کرونا وائرس کا مریض تھا۔ اور جس کی موت کی وجہ بھی کرونا وائرس ہے۔
میرے دوست نے مجھے بتایا بہت اثر و رسوخ اور میرے والد صاحب کی بیماری کا جو پچھلا ریکارڈ تھا۔ وہ دکھانے کے بعد اور سخت ہنگامہ آرائی کے بعد لاش ہمارے سپرد ہوئی۔ چائنہ اور امریکا کے درمیان بھی اس بیماری کو لے کر کافی حد تک ٹینشن رہی۔ چائنہ یہ الزام لگاتا ہے کہ یہ وائرس امریکن فوجی جنگی مشقوں کے دوران جو چائنہ کے شہر وہان میں منعقد ہوئی۔ امریکا نے اس وائرس کو پھیلایا اور جس کی وجہ یہ ہے چائنہ دنیا میں ایک نئے سپر پاور کے طور پر ابھر رہا ہے۔ جو امریکہ کو کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔
اور چائنہ یہ بھی الزام لگاتا ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں سے مل کر چائنہ کو معاشی طور پر کمزور کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ امریکا اپنے علاوہ کسی کو سپر پاور نہیں دیکھنا چاہتا۔ جبکہ امریکا یہ الزام لگاتا ہے کہ یہ چائنہ کی شرارت ہے اور چائنہ اس کی ویکسین بنا کر اور دنیا کو بیچ کر اپنے آپ کو سپر پاور دکھانا چاہتا ہے۔ کورونا وائرس کے پہلے مرحلے کے بعد دوسرا مرحلہ کافی اچھا اور تسلی بخش تھا کیوں کہ اس میں یہ وبا اور وائرس کے ختم ہونے کی خبریں آ رہی تھیں۔ لیکن جیسے ہی سردی کا آغاز ہو رہا ہے تو ایک دفعہ پھر اس کی پھیلنے میں تیزی بتائی جا رہی ہے۔
اور ایک دفعہ پھر(Lockdown) ہونے کے چانس بتائے جا رہے ہیں۔ اس پر لکھنے کے لیے تو بہت کچھ ہے۔ جس سے یہ ظاہر کیا جا سکتا ہے یہ ؤبا اور وائرس کم اور سازش زیادہ ہے۔ جس ملک میں جاب کے سلسلے میں زندگی بسر کر رہا ہوں۔ وہاں کاروباری سرگرمیاں اسکول، کالج، یونیورسٹیاں .اور تمام وه جگیں، ذرائع کھل گئے ہیں۔ جہاں پر کاروباری سرگرمیاں ہیں سوائے مسجدوں کے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر یہ سازش نہیں تھی تو اس کو ابتدائی دور میں میڈیا پر آرٹیفیشل اور فلمی سین دکھا کر لوگوں میں خوف ہراس کیوں پھیلایا گیا؟
اور جو وجوہات بتائی گئی اس کے پھیلنے کی! تو اس حساب سے تو دنیا کا تقریبا ہر شخص آج اس کا شکار ہوتا؟ لیکن پھر بھی ایسا نہیں ہے کیوں؟ امریکہ اور یورپ میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں اور لاکھوں لوگ میڈیا کے مطابق اس وائرس سے موت کی نیند سو گئے۔ سوائے چند لوگوں کے ان کی ڈیڈ باڈیز نہیں دکھائی گئی؟ جس طرح ہم سونامی اور(Earth Quick) کے دوران لوگوں کی لاشیں دیکھ چکے ہیں؟ اگر یہ سازش نہ ہوتی تو دنیا میں سب سے زیادہ اس سے عام مزدور اور جو روڈوں پر کام کرنے والے لوگ ہیں۔ وہ متاثر ہونے چاہیے تھے؟ جب کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہوا؟
ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وبا کم اور سازش زیادہ ہے۔ اور دنیا کے مختلف مکتبہ فکر کے لوگ اس کے بارے میں ابھی تک (Confusion) کا شکار ہیں کہ یہ وبا اور وائرس ہے یا پھر سازش؟
باقی واللہ اعلم!