Zamana Badal Gaya To Soch Bhi Badalni Chahiye
زمانہ بدل گیا تو سوچ بھی بدلنی چاہیے
بظاہر لڑکے میں کوئی کمی نہیں تھی۔ تین بہنوں کا اکلوتا بھائی، پڑھا لکھا اور وجیہہ نوجوان تھا، تعلیم بھی زمانے کے تقاضوں کے مطابق تھی اور ایک پرائیویٹ فرم میں ملازم تھا۔ ماہانہ اسی ہزار کے قریب کما رہا تھا۔ اس کی بہن کا میسج آیا اور اسی کے توسط مجھے پتا چلا کہ وہ کسی اچھے رشتے کی تلاش میں ہیں۔ میں نے ڈیمانڈ پوچھی تو کہا بس پڑھی لکھی شریف لڑکی ہو، ہمیں جہیز بھی نہیں چاہیے۔ میری ایک دوست بھی اپنی بہن کے رشتے کے لیے دو تین سال سے تلاش میں تھے۔
میں نے اس لڑکے کا نام تجویز کیا۔ دونوں گھرانوں کا رابطہ ہوا۔ وہ رشتہ دیکھنے آئے اور ان کو لڑکی پسند آ گئی۔ لیکن لڑکی والوں نے پہلے وقت مانگا اور پھر ٹالنے لگے۔ بظاہر انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی لیکن وجہ یہ بتائی گئی کہ ابھی لڑکے کی دو بہنیں بن بیاہی بیٹھی ہیں اس کے سر پر ذمہ داری ہے۔ ہمیں تو ایسا رشتہ چاہیے جس میں لڑکے کے بہن بھائی کم ہوں۔ خیر میں نے ان سے معذرت کر لی۔
کچھ دنوں بعد لڑکی کے گھر ایک اور رشتہ آیا وہ بھی ہر لحاظ سے اچھا تھا لیکن یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ گھر کرائے کا ہے اپنا گھر ہوگا تو ہم بیٹی کا رشتہ کریں گے۔ پھر اپنے ذاتی مکان والے بھی آئے لیکن لڑکے کا رنگ ذرا سا نولا تھا۔ لڑکی نے تصویر دیکھ کر خود انکار کر دیا۔ اسی دوران پنڈی سے ایک رشتہ آیا لڑکے کی نوکری سرکاری تھی، فیملی بھی چھوٹی تھی لیکن اعتراض اس بات پر تھا کہ لڑکے کی عمر کچھ زیادہ ہے (چھتیس سال)۔
بالآخر دس بارہ رشتوں سے انکار کے بعد ایک کینڈا پلٹ اکیلے نوجوان کا رشتہ قبول کرکے لڑکی کو بیاہ دیا گیا۔ یہ سارا کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور سوچنے لگی کہ ہمارے معاشرے میں عمومی سوچ یہ ہے کہ رشتے کے لیے لڑکی والوں کو دھکے کھانا پڑتے ہیں، انکار سننا پڑتا ہے، رد کیا جاتا ہے لیکن دیکھا جائے تو معاملہ دونوں طرف برابر ہے۔ رشتے کے لیے ایک لڑکے اور اس کے گھر والوں کو بھی بار بار رد کیے جانے کا سامنا ہے۔ اور وجوہات بہت معمولی ہوتی ہیں وہی جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔
رنگ، شکل، نوکری، مکان، فیملی اور دولت کی وجہ سے صرف لڑکی کو ہی نہیں لڑکوں کو بھی بری طرح رد کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے لڑکیاں دہلیز پہ ہی عمر کی نقدی گنوانے لگتی ہیں۔ جب ہم بات کرتے ہیں کہ زمانہ اتنا تبدیل ہوگیا ہے تو سوچ بھی تبدیل ہو جانی چاہیے۔ جس طرح لڑکی کی عزت نفس اور جذبات ہیں اور اسے رد کیے جانے کا دکھ ہوتا ہے۔ یہی کیفیت ایک لڑکے بھی ہوتی ہے جب اس کی مائیں بہنیں آ کر بتاتی ہیں کہ معمولی وجہ سے تمہیں مسترد کر دیا گیا ہے۔