Zindagi Ki Gumshuda Naghmagi Ki Talash
زندگی کی گم شدہ نغمگی کی تلاش

ڈاکٹر صفیہ عباد کی کتاب راگ رُت، خواہشِ مرگ اور تنہا پھول محض ایک ادبی تخلیق نہیں، بلکہ ایک ایسا زخمی محاورہ ہے جو انسانی روح کی تہہ در تہہ خاموشیوں کو بے چین کر دیتا ہے۔ یہ کتاب لفظوں کے اندر چھپی ہوئی وہ چیخ ہے جسے کسی نے سننے کی کوشش نہیں کی، وہ پھول ہے جو صدیوں سے تنہائی میں کھِل رہا ہے مگر اس کی خوشبو کسی کے نصیب میں نہیں آئی، وہ راگ ہے جو دلوں میں بجتا تو ہے مگر کسی ساز پر ہاتھ نہیں رکھتا۔ ایسے میں یہ کتاب صرف پڑھنے کی نہیں، محسوس کرنے کی چیز ہے۔ زندگی کے مسلسل بھاگ دوڑ میں، جہاں آپ روزانہ چودہ گھنٹے کام کرنے کے باوجود اپنے اندر کے خلا کو محسوس کرتے ہیں، جہاں تحریر آپ کے لیے آئینہ بھی ہے اور پناہ گاہ بھی، وہاں ایسی کتابیں انسان کو اپنی طرف پلٹنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
انسانی نفسیات ایک عجیب جہان ہے۔ خواہشِ مرگ کسی لمحاتی کمزوری کا نام نہیں بلکہ ایک طویل تنہائی کا نتیجہ ہے، وہ تنہائی جو محفلوں میں بھی خاموشی بن کر دل پر گرتی رہتی ہے۔ ڈاکٹر صفیہ عباد نے اس احساس کو جس باریک بینی اور خلوص سے بیان کیا ہے، وہ صرف ایک لکھاری کا نہیں، ایک معالج کا کام بھی لگتا ہے۔ وہ دکھ کو چھیڑتی نہیں، وہ اسے سہلاتی ہیں۔ وہ انسانی دل کے اندر قائم اس اندھیرے کمرے کو روشن کرنے کی کوشش کرتی ہیں جہاں اگلی سانس لینے کی وجہ بھی کبھی کبھی ختم ہوجاتی ہے۔ مگر یہاں ایک نکتہ بڑا اہم ہے۔ خواہشِ مرگ دراصل مرنے کی نہیں، زندگی کو نئے سرے سے جینے کی خواہش ہوتی ہے۔ یہ ایک پکار ہے جسے ہم اکثر غلط سمجھ لیتے ہیں۔ ایسے میں ان کی تحریر ایک دستِ شفقت کی طرح قاری کے کندھے پر آتی ہے اور کہتی ہے کہ تم تنہا نہیں ہو، انسان جب تک محسوس کرتا ہے، وہ زندہ ہے اور جب تک درد زندہ ہے، امید بھی زندہ ہے۔
راگ رُت دراصل زندگی کے ان موسموں کا نام ہے جو ہر انسان کے اندر بستے ہیں۔ کبھی بہار کی سی ہلکی خوشبو، کبھی خزاں کی سی اداسی، کبھی برسات کی سی نمی اور کبھی دسمبر کی سی سرد خاموشی۔ انسان ایک ہی وقت میں کئی موسموں میں رہتا ہے۔ مصروف، محنتی اور مسلسل تخلیق کے عمل سے گزرنے والے افراد کے اندر یہ تبدیلیاں اور بھی تیز محسوس ہوتی ہیں۔ کبھی لکھتے لکھتے لفظوں کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، کبھی دل کے شہزادے ایک ہی لمحے میں بوڑھے ہوجاتے ہیں، کبھی امید کا چراغ جلتا ہے تو کبھی ہوا اسے بجھا دیتی ہے۔ ڈاکٹر صفیہ عباد کی کتاب اسی داخلی موسم کی روداد ہے۔ وہ قاری کے اندر جھانک کر بتاتی ہیں کہ انسان کبھی مکمل خزاں نہیں ہوتا اور کبھی مکمل بہار بھی نہیں۔ زندگی ایک مسلسل راگ ہے جو کبھی مدہم، کبھی اونچا، کبھی بکھرا ہوا مگر ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس راگ کو سننے کا ہنر بھول چکے ہیں۔
کتاب کا تیسرا استعارہ، تنہا پھول، اس دنیا کے ہر اس انسان کا نقشہ ہے جو دوسروں کے لئے مضبوط، سمجھدار، رہنما، مددگار اور باوقار لگتا ہے، مگر اندر سے ایک نازک پنکھڑی کی طرح لرز رہا ہوتا ہے۔ آپ خود بھی اپنے قارئین، اپنے شاگردوں، اپنے خاندان اور اپنے سماج کے لیے ایک ایسے ہی مضبوط درخت کی مانند ہیں، مگر آپ کے اندر بھی چند ایسے تنہا پھول موجود ہیں جنہیں شاید صرف آپ ہی جانتے ہیں۔ ایسے پھول جن کی خوشبو صرف تنہائی میں محسوس ہوتی ہے، ایسے خواب جو کسی کو بتائے نہیں جا سکتے، ایسے سوال جو انسان کاغذ پر تو لکھ دیتا ہے مگر دل میں ان کے جواب نہیں ملتے۔ کتاب اس تنہا پھول کے وجود کو سلام پیش کرتی ہے۔ وہ اسے کمزوری نہیں کہتی، بلکہ انسان کے اندر موجود سب سے خوبصورت صداقت قرار دیتی ہے۔ یہ پھول ہی اصل شخصیت کو جڑیں دیتا ہے اور یہی پھول انسان کو وہ گہرائی عطا کرتا ہے جس سے بڑی تحریریں جنم لیتی ہیں۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے انسان خود اپنی زندگی کا تعارف پڑھ رہا ہو۔ کچھ جملے قاری کو اس شدت سے چھوتے ہیں کہ لگتا ہے یہ تو میں ہوں، یہ تو میرے ہی دن رات ہیں، یہ تو وہی الجھنیں ہیں جو میں نے کبھی بیان نہیں کیں۔ مصنفہ ہر احساس کو اتنے وقار اور نرمی سے چھوتی ہیں کہ پڑھنے والا نہ صرف اپنے دکھ کو سمجھتا ہے بلکہ اس کی تہوں میں چھپی ہوئی روشنی کو بھی دیکھ لیتا ہے۔ وہ قاری کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے راگ کو دوبارہ سننا شروع کرے، اپنی خواہشوں کی راکھ سے نیا چراغ جلائے اور اپنے اندر کھِلتے ہوئے اس تنہا پھول کو کمزوری نہیں بلکہ طاقت سمجھے۔
بالآخر یہ کتاب انسان کو ایک خاموش مگر طاقتور پیغام دیتی ہے۔ زندگی ایک مسلسل کہانی ہے۔ کوئی بھی باب آخری نہیں ہوتا۔ روشنی ہمیشہ اندھیرے کے بعد نہیں آتی، کبھی کبھی اندھیرے کے اندر سے ہی ایک ایسی شمع جل اٹھتی ہے جو ساری زندگی کو نئی شکل دے دیتی ہے۔ ایسے میں اگر انسان اپنے احساسات کو پہچان لے، اپنی تنہائیوں کو قبول کرلے، اپنے موسموں کو سمجھ لے، تو زندگی اسے کبھی نہیں ہراتی۔ یہ کتاب انہی چھپی ہوئی نغمگیوں کو واپس لانے کا نام ہے۔ یہ قاری سے یہ نہیں کہتی کہ وہ درد چھوڑ دے، بلکہ یہ سکھاتی ہے کہ درد کو کس طرح دوستی میں بدلا جا سکتا ہے۔ یہی وہ زاویہ ہے جو اس کتاب کو محض ادب نہیں، ایک شفا بنا دیتا ہے۔
ڈاکٹر صفیہ عباد کی یہ تحریر ہر اس شخص کے لئے ضروری ہے جو وقت کے ہاتھوں تھکن محسوس کرتا ہے، جو اپنے اندر ٹوٹ پھوٹ سن رہا ہے، جو اپنی زندگی کے خاموش راگ کو دوبارہ سننا چاہتا ہے۔ ایک لکھاری کے لئے تو یہ کتاب ایک خصوصی اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ مصنف ہمیشہ دوسروں کے دکھوں کو لفظوں میں ڈھالتا ہے مگر اپنے دکھ سے اکثر نظریں چرا لیتا ہے۔ یہ کتاب قاری کو خود کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے اور یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے تحریر بھی بدلتی ہے، زندگی بھی اور انسان بھی۔
یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ خواہشِ مرگ زندگی کا اختتام نہیں، کبھی کبھی یہ نئے جنم کا آغاز ہوتی ہے۔ راگ رُت زندگی کے بدلتے موسموں کی تربیت ہے اور تنہا پھول انسان کی اصل خوبصورتی۔ اگر انسان اپنے اندر کے ان رازوں کو پہچان لے، انہیں قبول کرلے، تو نہ صرف اس کی زندگی بدلتی ہے بلکہ اس کی تحریر میں بھی وہ روشنی آ جاتی ہے جو نسلوں تک راستہ دکھاتی ہے۔ یہی روشنی اس کتاب کا اصل پیغام ہے اور یہی روشنی ہر قاری کے دل میں ایک نیا چراغ روشن کر دیتی ہے۔

