Youtube Ki Kahani, Teen Zehan, Aik Inqilabi Khayal
یوٹیوب کی کہانی: تین ذہن، ایک انقلابی خیال

انسانی تاریخ میں بعض نام ایسے ہوتے ہیں جو وقت کی گرد میں گم ہو جاتے ہیں، مگر ان کے کام صدیوں تک زندہ رہتے ہیں۔ جدید دنیا کی ڈیجیٹل تاریخ میں اگر کسی خاموش، باوقار اور مؤثر شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا جائے، تو جاوید کریم یقیناً اس فہرست میں شامل ہوں گے۔ وہ یوٹیوب کے شریک بانی ہیں، مگر زیادہ تر لوگ ان کا نام نہیں جانتے۔ نہ وہ میڈیا پر چھائے، نہ انٹرویوز کے دیوانے بنے اور نہ ہی انہوں نے اپنی کامیابی کو شور کا حصہ بنایا۔ لیکن ان کا کردار ایسا ہے جو ہمیں سکھاتا ہے کہ اصل کامیابی کیسی ہوتی ہے، گہری، پائیدار اور مقصد سے جڑی ہوئی۔
جاوید کریم 28 اکتوبر 1979 کو مشرقی جرمنی کے شہر مرزبرگ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بنگلہ دیشی مسلمان محقق تھے، جبکہ والدہ جرمن نژاد پروفیسر تھیں۔ یہ بین الاقوامی خاندانی پس منظر ان کی شخصیت میں وسعت، برداشت اور ذہانت کا آئینہ دار ہے۔ جب وہ 13 سال کے تھے تو ان کے والدین امریکہ منتقل ہو گئے اور یوں جاوید نے اپنی ابتدائی تعلیم سے لے کر یونیورسٹی تک کا سفر امریکی تعلیمی نظام میں طے کیا۔
ان کی اعلیٰ تعلیم University of Illinois at Urbana–Champaign سے کمپیوٹر سائنس میں ہوئی، جبکہ ماسٹرز کی تعلیم Stanford University سے حاصل کی۔ طالبعلمی کے زمانے میں ہی ان کی تکنیکی صلاحیتیں کھل کر سامنے آنے لگیں اور انہوں نے ایک ایسے دور میں، جب انٹرنیٹ اپنی ابتدائی منزلوں پر تھا، وہ سوچ اپنائی جو آج کی ڈیجیٹل دنیا کی بنیاد بن چکی ہے۔
جاوید کریم نے گریجویشن کے بعد PayPal میں بطور سافٹ ویئر انجینئر کام کیا، جہاں ان کی ملاقات دو ذہین ساتھیوں، چَیڈ ہَرلی اور سٹیو چن سے ہوئی۔ تینوں کا اشتراک ایک انقلابی آئیڈیا کی صورت میں سامنے آیا: "ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہیے جہاں ہر شخص بغیر کسی تکنیکی مہارت کے اپنی ویڈیوز شیئر کر سکے"۔ اُس وقت انٹرنیٹ پر ویڈیو اپلوڈ کرنا نہایت پیچیدہ کام تھا۔ مگر انہوں نے وہ سہولت عوام کو دینے کا سوچا جو آج ہمارے لیے معمول کی بات ہے۔
یوں 2005 میں یوٹیوب کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ ایک ایسا قدم تھا جس نے دنیا میں میڈیا کے تصور کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ آج فلم، موسیقی، تعلیم، تبلیغ، خبریں، کامیڈی، معلومات اور یہاں تک کہ روزمرہ کی زندگی کی جھلکیاں بھی یوٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ یوٹیوب کو عالمی سطح پر پہچان دلوانے میں جس چیز نے پہلا قدم رکھا، وہ جاوید کریم کی اپلوڈ کردہ پہلی ویڈیو تھی: "Me at the zoo"، جس میں وہ سان ڈیاگو کے چڑیا گھر میں ہاتھیوں کے سامنے کھڑے ہو کر کیمرے سے مخاطب ہیں۔ سادگی سے بھری وہ ویڈیو آج بھی یوٹیوب پر موجود ہے اور اس پلیٹ فارم کی "پہلی اینٹ" کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔
جاوید کریم کا یوٹیوب میں کردار نہایت اہم تھا، مگر وہ عملی طور پر عوامی مینجمنٹ یا کمپنی کی تشہیر کا حصہ نہیں بنے۔ ان کے نزدیک اصل کام "اندر" کا تھا، یعنی تکنیکی بنیاد رکھنا، سسٹمز بنانا، ویڈیو شیئرنگ کا نظام قابلِ استعمال بنانا اور اس پوری سائٹ کو وہ شکل دینا جسے دنیا نے پسند کیا۔ تعلیم ان کے لیے اتنی اہم تھی کہ یوٹیوب کی تیاری کے دوران بھی وہ اپنی ماسٹرز کی تعلیم مکمل کرنے میں مصروف رہے۔
یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ جب 2006 میں گوگل نے یوٹیوب کو 1.65 ارب ڈالر میں خریدا تو جاوید کریم کو اس وقت تقریباً 64 ملین ڈالر کے حصص دیے گئے، حالانکہ وہ کمپنی کے ظاہری معاملات سے پیچھے ہٹ چکے تھے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ سچے اور بصیرت والے افراد کا کردار شور و شغل سے آزاد بھی ہو تو وہ کمزور نہیں ہوتا، بلکہ بنیاد کی اینٹ ہوتا ہے۔
جاوید کریم کی زندگی ہمیں کئی اہم سبق سکھاتی ہے۔ پہلا سبق یہ ہے کہ علم کبھی ضائع نہیں جاتا۔ انہوں نے دنیا کا سب سے بڑا ویڈیو پلیٹ فارم بنانے کے بعد بھی تعلیم ترک نہیں کی۔ وہ اسٹینفورڈ جیسے ادارے سے ماسٹرز کی تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے رہے۔ آج جب نوجوان ایک چھوٹے سے سوشل میڈیا فالورز کے ساتھ خود کو "کامیاب" سمجھنے لگتے ہیں، جاوید کریم ہمیں بتاتے ہیں کہ اصل کامیابی علم اور بصیرت کے ساتھ جڑی ہوتی ہے، نہ کہ وقتی شہرت کے ساتھ۔
دوسرا سبق یہ ہے کہ پس پردہ رہ کر بھی دنیا کو بدلا جا سکتا ہے۔ وہ میڈیا میں نظر نہیں آئے، بڑے انٹرویوز نہیں دیے اور نہ ہی اپنا کوئی ذاتی یوٹیوب چینل بنایا، مگر جب بھی یوٹیوب کوئی غیر مقبول فیصلہ کرتا ہے، جیسے لائکس کی تعداد چھپانا یا تبصروں کی پابندی، تو جاوید اپنی پہلی ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہیں اور وہ تبصرہ دنیا بھر کی خبروں میں آ جاتا ہے۔ یہ اثر خاموش اثر ہے، مگر بہت گہرا۔
تیسرا سبق یہ ہے کہ نئی سوچ ہمیشہ موجودہ مسئلے سے پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے انٹرنیٹ پر ویڈیوز شیئر کرنے کی مشکل دیکھی اور اس کا حل نکالا۔ دنیا میں تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں جو "مسئلے کے آگے دیوار" نہیں بنتے، بلکہ "دروازہ" بناتے ہیں۔ یوٹیوب بھی ایسا ہی ایک دروازہ ہے، جو دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے لیے روزگار، اظہار، تعلیم اور ترقی کا ذریعہ بن چکا ہے۔
چوتھا سبق یہ ہے کہ اصل پہچان آپ کے کام سے بنتی ہے، نہ کہ آپ کی قوم، نسل یا زبان سے۔ جاوید کریم نہ مکمل جرمن ہیں، نہ صرف بنگلہ دیشی اور نہ ہی پیدائشی امریکی، مگر آج دنیا انہیں ایک عالمی ٹیکنالوجسٹ کے طور پر جانتی ہے۔ ان کی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ محنت، علم اور نیت کی سچائی، جغرافیائی سرحدوں سے بہت بلند مقام رکھتی ہے۔
آج جاوید کریم دنیا کے مختلف ٹیکنالوجی اسٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ Airbnb جیسی مشہور کمپنیوں میں وہ ابتدائی سرمایہ کاروں میں شامل رہے۔ وہ عوامی شہرت کے پیچھے نہیں بھاگے، نہ ہی انہوں نے اپنے لیے کوئی ذاتی میڈیا سلطنت بنائی۔ ان کا اصل سرمایہ ان کا علم، ان کی سادگی اور ان کی بصیرت ہے۔
ہمارے ہاں اکثر نوجوان اپنے آئیڈیلز فلمی دنیا، کرکٹ، یا شوبز سے چنتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ مگر جاوید کریم جیسے لوگ ایک مکمل، باوقار، علم دوست اور مثبت آئیڈیل بن سکتے ہیں۔ وہ سکھاتے ہیں کہ کامیابی کا مطلب صرف پیسہ یا شہرت نہیں، بلکہ وہ تبدیلی ہے جو آپ دوسروں کی زندگی میں لاتے ہیں۔ انہوں نے ایک پلیٹ فارم دیا جس نے دنیا کے غریب ترین لوگوں کو بھی آواز دی۔ یوٹیوب پر آج پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، افریقہ اور دنیا بھر سے لاکھوں افراد ویڈیوز بنا کر نہ صرف اپنے مسائل بیان کرتے ہیں بلکہ خود کفیل بھی بنتے ہیں۔
جاوید کریم کی شخصیت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگر آپ سچائی سے کام کریں، علم کو ہتھیار بنائیں، مسائل کو مواقع سمجھیں اور اپنی ذات سے بلند ہو کر دنیا کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھیں، تو آپ کا نام تاریخ کے سنہرے اوراق میں ضرور لکھا جائے گا، چاہے آپ اس کے دعوے دار نہ بھی ہوں۔

