Yousuf Ka Misr
یوسف کا مصر

یوں تو تاریخ نے کئی بادشاہ دیکھے، کئی عالم، عابد، زاہد، فقیر، صوفی اور درویش آئے اور گزرے، لیکن یوسف ابن یعقوب کا ذکر الگ ہے۔ ان کی کہانی فقط ایک نبی یا بادشاہ کی داستان نہیں، یہ تو صبر، وفا، حیا، حکمت، علم، جمال، شرافت اور توکل کی وہ کہکشاں ہے، جس میں ہر ستارہ کسی صفتِ حسنِ الٰہی کی جھلک دکھاتا ہے۔
یوسفؑ کی شخصیت کو صرف "حسن" کی نظر سے دیکھنا ظلم ہے۔ وہ حسن جس پر مصر کی عورتیں انگلیاں کاٹ بیٹھیں، اس کا راز محض چہرے کی ساخت میں نہیں تھا، بلکہ ان کے کردار کا نور ان کے چہرے پر عکس انداز ہوتا تھا۔ ان کی روح کا جلال، ان کے صبر کی شیرینی، ان کی حیا کی چادر، ان کی حکمت کی روشنی، یہ سب مل کر یوسفؑ کو یوسفؑ بناتے تھے۔
یعقوب کا بیٹا، ابراہیم کا پوتا، اگر یوسف چاہتے، تو اپنے حسب و نسب کا ڈھنڈورا پیٹ سکتے تھے۔ کون نہ جھکتا ان قدموں میں جو خلیل اللہ کی نسل سے ہوں؟ لیکن کیا کمال تھا اس نبی کا کہ کبھی آباؤ اجداد کی عظمت پر فخر نہ کیا اور نہ کسی سے سفارش چاہی۔ جب کنعان سے مصر تک کا سفر کیا، تو کہیں بھی خود کو پیش نہیں کیا کہ "میں یعقوب کا بیٹا ہوں، اسحاق کا نواسہ اور ابراہیم کا وارث! " بس ایک ہی تعلق یاد رکھا، عبد اللہ۔
ان کے صبر کو دیکھیے بھائیوں کی سازش، کنویں کی تاریکی، غلامی کی ذلت، محل میں فتنے کی آزمائش، قید کا اندھیرا اور پھر اقتدار کی آزمائش، ہر مقام پر یوسفؑ نے اپنی شخصیت کے پہاڑ جیسے استحکام کا ثبوت دیا۔
قید خانہ کو خانۂ حکمت بنا دیا۔ آج کوئی معمولی الزام بھی لگے تو ہم چیخ اٹھتے ہیں، انصاف مانگتے ہیں، شور کرتے ہیں، میڈیا پر آ جاتے ہیں، وکیل کرتے ہیں، سفارش ڈھونڈتے ہیں۔ مگر یوسفؑ کو جب بے گناہ قید میں ڈالا گیا، تو ان کی زبان پر نہ شکوہ تھا، نہ فریاد۔ بلکہ اس قید خانے کو انہوں نے علم و دعوت کا مرکز بنا دیا۔ ساتھی قیدیوں کو توحید کا سبق پڑھایا، خوابوں کی تعبیر دے کر دلوں کو اللہ کی طرف مائل کیا اور قید خانے کی تنہائی کو قرب الٰہی کا ذریعہ بنا لیا۔
یہی وہ کردار ہے جو یوسف کو یوسف بناتا ہے۔ قید سے وزیر کا سفر انہوں نے کسی دروازے پر دستک دے کر نہیں، بلکہ اللہ پر کامل یقین رکھ کر طے کیا۔ بادشاہ کا خواب آیا، تو یوسفؑ کو یاد کیا گیا۔ نہ خود سفارش کی، نہ جلدی کی، بلکہ جب بادشاہ نے بلایا تو فرمایا:
"پہلے میرے اوپر لگے الزام کی تحقیق کرو، تاکہ میرا دامن صاف ہو"۔
یہ ہے یوسف کی خودداری اور یہی "یوسف کا مصر" ہے۔ ایک ایسا مصر جہاں کردار تخت پر بیٹھتا ہے، چہرہ نہیں۔
حسن یوسف، جو صرف چہرے پر نہیں، مصر کی عورتوں نے جب یوسفؑ کو دیکھا، تو بے اختیار انگلیاں کاٹ بیٹھیں۔ قرآن نے ان کے الفاظ نقل کیے: "ما ہٰذا بشرًا، اِن ہٰذا الا ملک کریم"۔
"یہ انسان نہیں، یہ تو کوئی معزز فرشتہ ہے! "۔
یہ حسن صرف جسمانی نہیں تھا۔ ان کی آنکھوں میں حیا کا نور، جبین پر توکل کی روشنی اور لبوں پر صبر کی مسکراہٹ، سب مل کر وہ حسن بناتے تھے جو زمین پر نازل ہوتا تو اہل مصر کو فرشتوں کا گمان ہوتا۔
یہی حسن جب زلیخا کے کمرے میں آزمائش بنا، تو یوسفؑ نے فرمایا: "قال رب السجن أحب إليّ مما يدعونني إليه"۔
"اے میرے رب! قید مجھے اس گناہ سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں"۔
ایسا شخص اگر قید ہو جائے، تو وہ قیدی نہیں رہتا، وہ زمانے کی اخلاقی معراج بن جاتا ہے۔
مصر کا اقتدار، دل کا انکسار، یوسفؑ جب مصر کے خزانوں پر فائز ہوئے، تو ان کے دل میں نہ غرور آیا، نہ فخر۔ وہ آج بھی یعقوب کے وہی فرمانبردار بیٹے تھے، اللہ کے وہی عاجز بندے۔ نہ سونے کا لباس بدلا، نہ تخت نے چال بدلوا دی۔ یہ وہ کردار ہے جو تخت پر بیٹھ کر بھی مٹی میں بیٹھنے والے درویشوں جیسا رہتا ہے۔
یوسفؑ کی معراج یہ نہیں کہ وہ وزیر خزانہ بنے، بلکہ یہ تھی کہ انہوں نے معاف کیا، ان بھائیوں کو جنہوں نے کنویں میں پھینکا تھا، ان کو بھی گلے لگایا اور کہا: "لا تثريب عليكم اليوم، يغفر الله لكم"۔
"آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے"۔
یہ وہ مصر ہے جہاں انتقام نہیں، عفو بستا ہے۔ یہ "یوسف کا مصر" ہے۔ ایک ایسی سرزمین جہاں دلوں کی بادشاہی ہوتی ہے، چہروں کی نہیں۔
یوسفؑ کی کہانی ہر اس شخص کے لیے مشعل راہ ہے جو آزمائشوں سے گھبرا جاتا ہے، زخموں پر رو پڑتا ہے، ناکامی کو شکست سمجھ لیتا ہے، یا شہرت کے لیے تعلقات ڈھونڈتا ہے۔
یوسف ہمیں بتاتے ہیں: غلامی بھی تمہاری آزادی بن سکتی ہے، اگر تم اللہ کے بندے ہو۔ قید بھی تمہارا عروج بن سکتی ہے، اگر تم دل سے آزاد ہو۔ تنہائی بھی تمہاری تربیت گاہ بن سکتی ہے، اگر تم توکل کرتے ہو۔
ہمارے دل کا مصر تب آباد ہوگا جب ہم یوسفؑ کی سیرت کا ایک قطرہ اپنے کردار میں لے آئیں۔ ہم تو اکثر چھوٹے چھوٹے مسائل کی وجہ سے روتے ہی ہیں، نہ یوسفؑ جیسا صبر ہے، نہ ان جیسا حلم، نہ ان جیسا علم، نہ حیا، نہ دعا۔
آج کا انسان خود کو گم کر بیٹھا ہے۔ کردار کی جگہ شخصیت، توکل کی جگہ سفارش، صبر کی جگہ فریاد اور علم کی جگہ نمود نے لے لی ہے۔ یوسف کا مصر ہمیں واپس بلاتا ہے، اس مصر کی طرف جہاں بندگی سب سے بڑا منصب ہے اور اخلاص سب سے بڑی طاقت۔
آئیے، ہم بھی یوسفؑ کی طرح کنعان سے مصر کا سفر کریں۔ آئیے، ہم بھی زخم سہہ کر دعا کرنا سیکھیں۔ آئیے، ہم بھی اس کنویں میں اتریں جہاں صرف اللہ ہوتا ہے اور اللہ کافی ہوتا ہے۔ اگر ہم یوسفؑ کی ایک جھلک بھی پا لیں، تو یقین کریں ہمارے دل کا مصر آباد ہو جائے گا۔

