Tuesday, 09 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Teri He Baatein Sunane Aaye

Teri He Baatein Sunane Aaye

تیری ہی باتیں سنانے آئے

ان کی ملاقات ایک بڑے کانفرنس ہال میں ہوئی۔ وہ ایک ساتھ چلتے اور باتیں کرتے صدر دروازے تک آ گئے۔ دروازے پہ آکے وہ رک گئیں۔ اس نے کہا آپا آئیں نا باہر نکلیں، کہا نہیں پہلے تو اشفاق صاحب ہی نکلیں گے۔ وہ ابھی پیچھے تھے۔ اسے یہ استدلال ذرہ عجیب سا لگا اور اس نے کہا کہ بانو آپا یہ کیا بات ہوئی، ٹھیک ہے محبت اپنی جگہ، اپنے خاوند کی جس طرح آپ پرستش کرتی ہیں وہ اپنی جگہ، پہلے آپ کیوں نہیں جا سکتیں۔ کہنے لگیں دیکھو نا جب تک انجن نہیں آئے گا تو گاڑی تو نہیں چلے گی۔ وہ تو میرا انجن ہے۔ وہ آئیں گے تو میں ان کے پیچھے لگ کے چلی جاؤں گی۔ انجن کے بغیر گاڑی کیسے چل سکتی ہے۔

زندگی میں ایک دوسرے پر انحصار کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر زندگی کی ندی کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ دیکھیں نا آپ نے اگر کسی کیلئے ٹین میں پانی گرم کرکے غسل خانے تک نہیں پہنچایا۔ گیزر نے چلنا ہے تو ایک رابطہ ٹوٹ گیا نا۔ جب آپ نے کسی کیلئے گرم چپاتی پکا کے میز پہ نہیں رکھی تو ایک اور رابطہ ٹوٹ گیا۔ رات کو اگر گھر میں شوہر کو دبانے والا آتا ہے تو آپ کا ایک اور رابطہ ٹوٹ گیا۔

زندگی انحصار کرنے کا کھیل ہے۔ جتنے رابطے ہوتے ہیں ان کے اندر جو اصلی بیان ہے وہ یہ ہے کہ جتنے طور پہ آدمی جذباتی، جسمانی اور مالی طور پر دوسروں پہ انحصار کرے گا اتنا ہی وہ رشتہ مضبوط ہوگا۔

آپ کی بوڑھی ماں جو ہے، نہ وہ کسی سے بات کر سکتی ہے، نہ وہ ڈاکٹر افورڈ کر سکتی ہے، نہ اسے کسی نے ملنے آنا ہے۔ اب اس کا اور اس کی بیٹی بہو کا رابطہ کتنا مضبوط ہو سکتا ہے۔ سب کچھ آپ نے کرنا ہے، سارا وقت آپ نے دینا ہے۔

میں آپ کو یہاں ایک چھوٹا سا واقعہ سنانا چاہوں گی۔ ہمارا ایک چھوٹا سا رسالہ "داستان گو" کے نام سے نکلتا تھا۔ وہ غربت کا زمانہ تھا۔ اشفاق صاحب کو بڑا شوق تھا کہ ہم ایک رسالہ نکالیں۔ جو سب سے جداگانہ اور سب سے الگ خوبیاں رکھنے والا ایک رسالہ ہو۔ ہمارے پاس ڈرائیر نہیں تھا۔ ہم گھر ہی پہ اس کا سر ورق بھی چھاپتے تھے۔ میرے بھائی آرٹسٹ تھے۔ وہ سر ورق بناتے تھے۔ سلک سکرین پرنٹنگ یا کچھ ایسا کرتے تھے۔ مجھے کچھ پتا نہیں وہ کیا چیز تھی۔ بس مجھے اتنا پتہ ہے اس کے لئے پینٹ بنانا پڑتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میرے بھائی آواز لگاتے تھے کہ پینٹ موٹا ہوگیا ہے۔ پتلا کرو تو پھر اشفاق صاحب میں زور زیادہ تھا۔ وہ اس کو پتلا کرتے تھے۔

گھر کے برآمدے میں چکیں لگی تھیں۔ پرانے زمانے کا پردے کا رواج تھا۔ تو ہم برآمدے میں بیٹھ کر سلک سکرین پرنٹنگ پہ داستان گو کا سر ورق بنایا کرتے تھے۔ وہ ایک چھوٹا سا رسالہ ہوتا تھا۔ سکھائیں کیسے ڈرائیر تو ہے نہیں۔ پیسے بھی نہیں کہ ڈرائیر خرید لیں۔ بھائی وہ تو اتنے ہزار کا آتا ہے روز رات کو یہ بحث ہوتی تھی کہ اس کیلئے ڈرائیر ہونا چاہیے۔ لیکن نہیں مل پاتا تھا۔ تو مجھے آواز دیتے تھے، چھوٹا بلا کے۔ چھوٹے ادھر آ جا۔ سب کچھ بند کردے، باورچی خانہ بند کر دے، کھانا بند کر دے، یہ لگاتی جا۔ تو دو چکوں کے درمیان فاصلہ بنا کے ان کو سوکھنے کیلئے میں لگا دیتی تھی۔ ہزار ڈیڑھ ہزار کاغذ جتنا چھپنا ہوتا تو وہ اس میں لگانا میرا کام تھا۔ ایک دن غلطی سے ایک کاغذ مجھ سے گر گیا۔ دونوں، میرے بھائی بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور میرے میاں بھی، وہی، میل شاون ازم کی بات۔

اب کچھ مذہب کی بات ہو جائے تو مذہب اعتدال سے چلتے رہنے کا نام ہے۔ کبھی کچھ حاصل ہوگیا، کبھی نہ ہوا۔ لیکن چلتے رہنے اور کرتے رہنے کا مذہب حکم دیتا ہے۔ بس حرکت بہر صورت رہنی چاہیےکہ حرکت زندگی اور جمود موت ہے۔

وضو کا فلسفہ صرف طہارت و صفائی تک محدود نہیں بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر ہے۔ مثلاً ہاتھ دھوتے ہوئے عاجزانہ التجا کہ مالک ان سے کسی کو ضرب نہ لگے۔ میرے ان ہاتھوں کی خوبصورت مخروطی انگلیوں میں خوشگوار تحریریں لکھنے والا قلم ہو۔ دل آویز اور دل نشیں عبارتیں لکھنے والا۔ یہ بے کسوں کا ہاتھ تھامنے والا ہو۔ کہ انسان کی آدھی تقدیر اس کے اپنے ہاتھ پر اور آدھی اس ہاتھ پر ہوتی ہے جس سے وہ ہاتھ ملاتا ہے۔

کلی کرتے ہوئے نہایت عاجزی و انکساری سے کہنا اے اللہ تو میری زبان کی حفاظت فرما کہ اس سےکسی کو زخم نہ لگے۔ یہ دل پذیر اور روح کے شگاف بھر دینے والی باتیں کرے، چرکے لگانے والی نہ ہو۔ اس کی آواز اور انداز میں غضب کی چاشنی ہو۔ یہ آواز اونچا کرنے کی بجائے دلائل کو اونچا کرنے والی ہو۔ کہ پھول بادل کے گرجنے سے نہیں، برسنے سے اگتے ہیں۔ اسے جرات اظہار عطا فرما کہ یہ اگر کسی بے جان مجسمے کو بھی مخاطب کرے تو اس میں زندگی کے آثار پیدا کر دے۔ لیکن اسے غلط، فالتو اور نوکیلی باتوں کو ترک کرنا بھی سکھا۔ جن کے سننے سے دل دکھ سے بھر جائیں۔ یہ جو دعوی کرے عمل اس کے مطابق ہو جائے۔ اسے دوسروں کے عیبوں کی پردہ پوشی سکھا جیسے تو بدبخت ترین لوگوں کے عیبوں پر بھی پردہ ڈالے رکھتا ہے۔ بے شک تیرا فضل کسی وجہ کا محتاج نہیں۔

چہرہ دھوتے ہوئے کہنا اس کو بہترین فہرست ابواب عطا کر کہ یہ میری سوچوں کا عکس ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ میں کیا سوچتا ہوں۔ میرے دماغ کو صحیح سوچنا سکھا کہ میرے چہرے کو اس کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے شرمندگی نہ ہو۔ یہ دلکش مسکراہٹیں دینے والا ہو۔ اس پہ بیزار کر دینے والی تیوری کا ظہور نہ ہو۔ ایک خوابناک اور خوشگوار ہنسی جو گھنٹی کی طرح بجتی ہے اور دریا کی موج کی طرح بہتی ہے۔ اس پہ لگی دو خوبصورت آنکھوں کو قدرت کے کرشموں کو دیکھ کر حیرت زدہ ہونا اور حرام چیزیں دیکھنے سے پرہیز کرنا سکھا۔ کہ تو چاہتا کہ ہم باحیا اور پاک باز رہیں۔ ان کو محبتوں سے بھر دے کہ کوئی آنکھ اس قدر ذہین اور ہوشیار نہیں جتنی محبت کی آنکھ ہے۔

سر کا مسح کرتے ہوئے کہنا کہ میرے ذہن رسا کو پاکیزہ خیالات، سوچیں، اچھی اور مزے مزے کی باتیں سوچنا سکھا۔ میری آرزو ہے کہ یہ پر پیچ، شرارتی اور آوارہ خیالات سے پاک ہو کہ میری اصل ہستی تو میری سوچ ہے باقی تو ہڈیاں اور گوشت ہیں۔ مجھے توفیق دے کہ میں ان خیالات کا پہرا دار رہوں کہ سوچ مستقبل کو تباہ بھی کر سکتی ہے اور سنوار بھی دیتی ہے۔ دل کے دروازے پر دربان بن کر بیٹھوں اور دیکھوں کہ کونسا خیال آتا اور کونسا جاتا ہے اور پھر ان سوچوں اور باتوں کو خوبصورت الفاظ اور تحریروں میں ڈھال جن سے تیرے بندوں اور تیرے نظام کائنات کو فائدہ پہنچے۔ ہم دل کی کدورت کو جتنا دور کرتے جائیں گے۔ ہمارا دل محبت کے نور سے روشن ہوتا جائے گا اور عارف کے دل کی طرح اسے انسانیت کی محبت سے آباد رکھ۔ یہ کھو جانے اور چھن جانے پر غم زدہ نہ ہو بلکہ ہر صورت شکر گزار رہے۔ میں گناہ گار ہوں تو محسن آقا ہے۔ بےشک میں نے برا کیا اور احسان چاہتا ہوں۔

کانوں کا مسح کرتے ہوئے کہنا کہ ان کو ہر ناپسندیدہ بات سننے سے محفوظ رکھ۔ کہ ان کا پیغام وصول کرکے میرا دماغ پراگندہ نہیں معطر ہو۔

پاؤں دھوتے ہوئے کہنا کہ مالک یہ ہمیشہ ان راستوں پہ خوش خرامی کریں جو تجھے پسند ہیں اور غلط سمتوں میں فاصلے طے نہ کریں۔ ان کی حرکت میں تکبر نہیں احترام ہو کہ فیض اس کیلئے ہے جس کے پاس احترام ہے۔ تقدیس بڑی اہم چیز ہے جس کے پاس تقدیس ہے اسے راستہ مل جاتا ہے اور "میں" راستے اور یقین سے دور لے جاتی ہے۔ مالک میرے نقوش کف پا روشن و پاکیزہ سمتوں اور راستوں کی جانب رہنمائی کریں۔ غرضیکہ تمام اعضاء طلب حق میں مستغرق ہو جائیں۔ ان کا سفر اخلاص سے خالی نہ ہو بلکہ یہ سفر اخلاص کی سر بلند فصلیں پیدا کرے کہ سفر میں اکثر اخلاص کا قحط پیدا ہو جاتا ہے۔

بے نام دیاروں کا سفر کیسا لگا ہے
اب لوٹ کے آئے ہو تو گھر کیسا لگا ہے

Check Also

Israel Nawaz Abu Shabab Ki Maut

By Wusat Ullah Khan