Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Tehqeeq, Fan, Zaroorat Aur Urdu Dunya Ka Almiya

Tehqeeq, Fan, Zaroorat Aur Urdu Dunya Ka Almiya

تحقیق، فن، ضرورت اور اردو دنیا کا المیہ

تحقیق ایک ایسا عمل ہے جو انسانی علم کو محض معلومات سے نکال کر فہم و شعور کے درجے تک پہنچاتا ہے۔ یہ محض کچھ کتابیں پڑھ کر خلاصہ لکھنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ذہنی ریاضت، فکری مشق اور علمی ذمہ داری ہے۔ تحقیق دراصل ایک ایسا شعوری سفر ہے جس میں انسان کسی موضوع کے ہر پہلو کا گہرائی سے مطالعہ کرتا ہے، اس کے کھرے کھوٹے کو پرکھتا ہے، اس کی صداقت و سچائی تک پہنچتا ہے اور پھر ان نتائج کو ایک منظم، باقاعدہ اور معیاری انداز میں پیش کرتا ہے۔ عربی زبان میں "تحقیق" کے معنی ہیں کسی چیز کی حقیقت کو جانچنا اور جب ہم اس اصطلاح کو علمی دنیا میں استعمال کرتے ہیں تو یہ اس پوری کاوش کا نام بن جاتی ہے جس کا مقصد علم کی گہرائیوں سے سچ کو تلاش کرنا ہوتا ہے۔

تحقیق کا فن ہر ترقی یافتہ معاشرے کی اساس ہوتا ہے۔ وہ قومیں جو تحقیق میں مہارت رکھتی ہیں، وہی سائنسی، معاشی، فکری اور ادبی ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھتی ہیں۔ اس تناظر میں اگر ہم اردو زبان میں تحقیق کے موجودہ معیار کا جائزہ لیں تو صورتحال نہایت افسوسناک نظر آتی ہے۔ مغربی دنیا نے تحقیق کو اٹھارویں صدی ہی میں ایک فن، ایک باقاعدہ ضابطہ اور ایک منظم عمل کے طور پر اپنا لیا تھا۔ وہاں نہ صرف تحقیق کے اصول، بلکہ اس کے ہر مرحلے کو سائنٹیفک انداز میں طے کیا گیا۔ حواشی لکھنے سے لے کر کتابیات مرتب کرنے تک، اشاریہ سازی سے لے کر تحقیقی سوالات کی تشکیل تک، ہر پہلو پر محنت کی گئی۔ نتیجتاً وہاں تحقیق محض ڈگری کے لیے نہیں، بلکہ علم کے فروغ اور نئی راہوں کی دریافت کے لیے کی جاتی ہے۔

بدقسمتی سے اردو زبان میں تحقیق کو وہ درجہ نہ مل سکا جس کی یہ مستحق ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں تحقیق ایک رسمی مرحلہ بن کر رہ گیا ہے۔ اکثر جامعات میں محققین تحقیق کے مقصد سے زیادہ ڈگری کے حصول پر زور دیتے ہیں۔ تحقیق کے رسم و رواج، اصول و ضوابط اور معیار پر نہ کوئی اجتماعی سوچ سامنے آئی، نہ ہی اس کی کوئی منظم کوشش کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی جامعہ کے مختلف شعبوں، بلکہ ایک ہی شعبے کے مختلف محققین کے مقالے دیکھیں تو ان کے انداز، طریقہ کار، حواشی اور کتابیات لکھنے کے اصول الگ الگ نظر آتے ہیں۔ اس بے ربطی اور غیر منظم طرزِ عمل نے اردو تحقیق کو عالمی سطح پر وہ مقام حاصل کرنے سے روک رکھا ہے جو اس کا حق تھا۔

ایسے میں اگر کوئی شخص تحقیق کے فن کو نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ اسے ایک واضح، جامع اور قابلِ عمل انداز میں پیش بھی کرتا ہے تو یہ عمل بلاشبہ اردو دنیا کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ ڈاکٹر گیان چند کی کتاب "تحقیق کا فن" ایسی ہی ایک کاوش ہے جو اردو تحقیق کے میدان میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب صرف ایک نصابی یا تعلیمی کتاب نہیں بلکہ ایک فکری تحریک ہے جو اردو تحقیق کو نظم و ضبط، معیار اور گہرائی عطا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ڈاکٹر گیان چند نے اپنی اس کتاب میں تحقیق کے تمام بنیادی اور پیش رفتی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب محض تھیوری یا اصولوں کا مجموعہ نہیں بلکہ اس میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے ذاتی تجربات، مشاہدات اور علمی سفر کی جھلک دکھائی ہے۔ ان کی یہ تحریر محققین، اساتذہ اور طلبہ کے لیے یکساں مفید ہے کیونکہ یہ تحقیق کے میدان میں داخل ہونے والے ہر شخص کو یہ سمجھاتی ہے کہ تحقیق صرف مواد جمع کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک فکری ذمے داری ہے جو سچ، دیانت داری اور علمی غیر جانبداری کا تقاضا کرتی ہے۔

کتاب "تحقیق کا فن" اس بات کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ جب تک اردو تحقیق کے لیے متفقہ اصول اور معیاری طریقہ کار وضع نہیں کیے جاتے، اس وقت تک ہم ایک مربوط علمی روایت قائم نہیں کر سکتے۔ ہمیں محض مقالہ مکمل کرنے کی فکر نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ ہم جس موضوع پر تحقیق کر رہے ہیں، کیا وہ واقعی علم میں کوئی اضافہ کر رہا ہے یا محض دہرائے جانے والی باتوں کا ایک اور مجموعہ ہے؟ کیا ہماری تحقیق کسی نئی جہت کی نشاندہی کر رہی ہے؟ کیا ہم نے اپنی تحقیق کے ہر پہلو پر سچائی سے غور کیا ہے؟ کیا ہم نے حوالہ جات، اشاریہ، ترمیم، ترتیب اور مواد کی تصدیق جیسے پہلوؤں پر محنت کی ہے؟

ڈاکٹر گیان چند کی کتاب اس سارے عمل کو محض نظریاتی انداز میں نہیں بلکہ ایک قدم بہ قدم رہنمائی کی صورت میں پیش کرتی ہے۔ وہ اساتذہ جو تحقیق کرواتے ہیں اور وہ طلبہ جو تحقیق میں قدم رکھتے ہیں، ان دونوں کے لیے یہ کتاب ایک دستی چراغ ہے جو ان کے راستے کو روشن کرتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری جامعات میں ایسی کتابوں کا مطالعہ کرنا فرض نہیں سمجھا جاتا۔ طلبہ اپنی تحقیق کا بیشتر حصہ انٹرنیٹ پر موجود غیر مصدقہ مواد سے حاصل کرتے ہیں اور بعض اوقات تو محض "کاپی پیسٹ" کرکے ایک مقالہ تیار کر لیا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں "تحقیق کا فن" ایک ایسے درخت کی مانند ہے جو بنجر زمین پر اگتا ہے اور علم کے پیاسوں کو سیراب کرتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو زبان میں تحقیق کو صرف رسمی تقاضا نہ سمجھا جائے بلکہ اسے علم کے فروغ، علمی وقار کے قیام اور قوم کی فکری ترقی کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس کے لیے نہ صرف اساتذہ اور محققین کو سنجیدگی سے کام لینا ہوگا بلکہ جامعات کو بھی ایک واضح پالیسی بنانی ہوگی۔ تحقیق کی رسمیات پر متفقہ اصول طے کیے جائیں، تحقیق کا معیار مقرر کیا جائے اور "تحقیق کا فن" جیسی کتابوں کو تحقیق کا لازمی حصہ بنایا جائے۔ ساتھ ہی طلبہ میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ تحقیق صرف اس لیے نہیں کی جاتی کہ ڈگری حاصل ہو جائے، بلکہ اس لیے کی جاتی ہے کہ علم میں اضافہ ہو، سچ سامنے آئے اور معاشرے کو بہتر بنانے کی کوئی راہ نکلے۔

اگر ہم نے تحقیق کو اس کے اصل مفہوم، اصل مقصد اور اصل روح کے ساتھ نہیں اپنایا تو ہم نہ صرف ایک علمی روایت کے فروغ سے محروم رہیں گے بلکہ آنے والی نسلوں کے ذہنوں کو بھی غیر معیاری علم کے سپرد کر دیں گے۔ علم کی دنیا میں وہی زبانیں، وہی قومیں اور وہی ادارے زندہ رہتے ہیں جو تحقیق کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور تحقیق کو محض ڈگری کا ذریعہ نہیں بلکہ قوم کی علمی تقدیر کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ اردو زبان کو اگر عالمی علمی منظرنامے میں کوئی مقام درکار ہے تو ہمیں تحقیق کو فن، فرض اور فخر کے طور پر اپنانا ہوگا اور "تحقیق کا فن" جیسی کتابوں کو اپنے فکری و تعلیمی نظام کا ستون بنانا ہوگا۔

یہ وقت کی پکار ہے کہ اردو تحقیق کو اس کا جائز مقام دیا جائے۔ اگر ہم نے اب بھی غفلت برتی، تو آنے والی نسلیں ہم سے سوال کریں گی کہ ہم نے ان کے لیے علمی ورثے میں کیا چھوڑا؟ کیا ہم نے ان کے لیے تحقیق کی کوئی روشن مثال قائم کی؟ کیا ہم نے انہیں بتایا کہ سچ کیسے تلاش کیا جاتا ہے؟ ہمیں آج ہی سے تحقیق کو ایک سنجیدہ، معیاری اور باعزت عمل کے طور پر اپنانے کی ضرورت ہے، تاکہ علم کا یہ چراغ آئندہ نسلوں تک روشن رہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali