Soft Kill Aur Kinetic Kill (4)
سافٹ کل اور کائنیٹک کل (4)

اب ہم اس فکری، علمی اور قومی شعور بیدار کرنے والی تحریر کے آخری چار عنوانات کی طرف بڑھتے ہیں۔ جہاں سوال صرف یہ نہیں رہتا کہ دشمن کیا کر رہا ہے، بلکہ اصل یہ سوال بنتا ہے کہ "ہم کیا کر رہے ہیں؟" یہ تحریر اب انجام کی طرف نہیں، اٹھان کی طرف جا رہی ہے۔ جہاں شعور، مزاحمت اور نظریاتی بیداری کی روشنی دکھائی دیتی ہے۔
تعلیم اور میڈیا میں سافٹ کل کے نقوش جنگ کا سب سے طویل اور خفیہ محاذ ہوتا ہے۔ نصاب اور میڈیا سب سے بےآواز بارود ہوتا ہے۔ جب تعلیم میں سے "خودی" نکال دی جائے، جب نصاب سے تاریخ کے وہ حصے حذف کر دیے جائیں جن سے فخر جنم لیتا ہے، جب اساتذہ کو نظریاتی محاذ کا سپاہی بنانے کے بجائے ایک نوکری پیشہ کلرک بنا دیا جائے۔ تو سمجھ لیجیے، قوم پر "سافٹ کل" کا کامیاب حملہ ہو چکا ہے۔
پاکستان کا تعلیمی نصاب گزشتہ دہائیوں میں کئی بار تبدیل ہوا۔
کبھی جہاد کو "شدت پسندی" کہا گیا۔ کبھی اسلامی تاریخ کے اسباق مختصر کیے گئے اور کبھی "مشترکہ ثقافت" کے نام پر ہندومت اور انگریزی سامراج کو قابلِ قبول بنا کر پیش کیا گیا۔
اسی طرح میڈیا نے "خبر" اور "تفریح" کے نام پر وہ سب کچھ دکھایا جو دشمن دکھانا چاہتا تھا:
مادر پدر آزادی۔ خاندانی نظام پر طنز۔ مذہب کو دقیانوسی بنا کر پیش کرنا اور قومی اداروں پر تنقید کو "جرأت اظہار" کا نام دینا۔
جب بھی کوئی شخص کہتا ہے: "یہ صرف ایک فلم ہے، سنجیدہ نہ بنو"۔
تو سمجھ لیجیے کہ دشمن اپنے ہدف میں کامیاب ہو چکا ہے۔ کیونکہ اب وہ فلم صرف فلم نہیں رہی۔ بلکہ دماغ میں نظریاتی وائرس چھوڑ چکی ہے۔
مزاحمت کیسے کی جائے؟ نظریاتی دفاع کی ضرورت کیسے پوری ہو؟
دشمن کی جنگ میں بندوق کی نہیں بلکہ شعور کی گولیاں چلانی ہوں گی۔ اب ہمیں "نظریاتی دفاع" کا وہ نظام تشکیل دینا ہے جو نہ صرف حملے کو روکے، بلکہ جواب بھی دے۔
یہ ممکن ہے اگر تعلیم کو صرف معلومات کا ذریعہ نہیں، بلکہ نظریاتی تربیت کا مرکز بنایا جائے۔ جس میں خودی، وحدت اور تہذیبی غیرت شامل ہو۔
اساتذہ کو محض لیکچر دینے والا نہیں، بلکہ "قومی نظریہ کا محافظ" تصور کیا جائے۔ انھیں ایسی تربیت دی جائے جو صرف مضمون نہیں، بلکہ مقصد پڑھائے۔
میڈیا کو "ریٹنگ" سے نکال کر "ریاست" سے جوڑا جائے۔ اسے صرف خبروں کا مرکز نہیں، بلکہ "فکری دفاع" کا محاذ بنایا جائے۔
نوجوانوں کو اس بات کا شعور دیا جائے کہ دشمن کی گولی سے زیادہ خطرناک، دشمن کا آئیڈیا ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کو ہتھیار نہیں، بلکہ افکار، اقدار اور شعور سے لیس کر دیں تو دشمن کا ہر سافٹ کل ناکام ہو جائے گا۔
پاکستان کا راستہ سافٹ پاور بمقابلہ سافٹ کل ہے۔ یہ ہر دفاعی جنگ کی کامیابی کا دوسرا مرحلہ ہوتا ہے۔
اس کے لئے کیا اقدامات کیے جائیں؟ ہم سافٹ کل کا شکار ہی کیوں رہیں؟ ہم اپنی Soft Power کیوں نہ بنائیں؟
پاکستان کے پاس کیا نہیں ہے:
عظیم تہذیبی ورثہ ہے (موئنجو داڑو سے قائدِ اعظم تک)۔ روحانی سرمایہ ہے (علامہ اقبال، ولی اللہ، سرسید، مولانا مودودی)۔ دینی بصیرت ہے اور ایک بے مثال اور کثیر نوجوان نسل ہے جو دنیا کو ہلا سکتی ہے۔
ہم اپنی سافٹ پاور ان ذرائع سے قائم کر سکتے ہیں:
1۔ اردو ادب اور فکر کو عالمی سطح پر متعارف کروا کر۔
2۔ اسلامی فلسفے کو دلیل کے ساتھ جدید تعلیمی اداروں میں پڑھا کر۔
3۔ سنیما، ڈرامہ، یوٹیوب اور سوشل میڈیا کو نظریاتی بیانیے کا ذریعہ بنا کر۔
4۔ دنیا کو دکھا کر کہ ہمارا نظریہ شدت نہیں، رحمت اور عدل ہے۔
یاد رکھیے:
"اگر ہم نے سافٹ کل کو شکست دینی ہے، تو صرف دفاع سے نہیں، بلکہ نظریاتی حملے سے دینی ہے"۔
یاد رکھیے، جنگ وہی جیتتا ہے جو خاموش حملے پہچان لے۔
یہ جنگ ایک عجیب جنگ ہے۔ نہ میدان ہے، نہ مورچہ، نہ توپ ہے، نہ نعرہ۔ یہ جنگ سوچوں میں لڑی جاتی ہے، نظروں میں، لفظوں میں، لہجوں میں اور خوابوں میں اور اس جنگ کا فاتح وہ ہے، جو وقت پر سمجھ جائے کہ "اب گولی نہیں، تصویر مارتی ہے، اب ٹینک نہیں، ترانہ گراتا ہے، اب حملہ صرف سرحد پر نہیں، دل میں ہوتا ہے"۔
اگر ہم نے دشمن کے خاموش حملے نہ پہچانے تو ہم وہ آخری نسل ہوں گے جو اپنے بچوں کو آزاد تاریخ نہیں، صرف آزاد ماضی سنائے گی۔ لیکن اگر ہم جاگ گئے، تو نہ صرف دفاع کریں گے۔ بلکہ فکر کا قلعہ تعمیر کریں گے اور دنیا کو دکھائیں گے کہ "اسلامی تہذیب صرف باقی ہی نہیں ہے، بلکہ بیدار بھی ہے"۔

