Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Soft Kill Aur Kinetic Kill (3)

Soft Kill Aur Kinetic Kill (3)

سافٹ کل اور کائنیٹک کل (3)

آیئے اب ہم کچھ پیش رفت کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیسے دشمن دوست کے روپ میں ثقافتی حملے کرتا ہے اور آپ کے گیت گاتا ہے۔ جنگ کے میدان میں دشمن جب تمہاری زمین نہ لے سکے تو وہ تمہارا ذہن لے لیتا ہے اور ذہن پر قبضہ کرنے کا جو سب سے حسین، سب سے خفیہ اور سب سے خطرناک ہتھیار ہے، وہ ثقافت ہے۔

ثقافت حملہ نہیں کرتی، بلکہ دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہے۔ وہ تمہیں تمہارے ہی انداز میں کچھ "نیا"، کچھ "ماڈرن" اور کچھ "دلچسپ" دکھاتی ہے۔ تم سوچتے ہو، یہ صرف تفریح ہے۔ مگر دراصل یہ تمہاری اقدار کی خاموش موت ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر، مغربی فلمیں اور ڈرامے دنیا بھر میں "روشن خیالی" کے نام پر پھیلائے گئے۔ نیٹ فلیکس کی مقبول ترین سیریز میں فیملی یونٹ کا ٹوٹنا، مذہبی احکامات سے بغاوت اور بے راہ روی کو "معمول" کے طور پر دکھانا عام ہے۔ یہ صرف مغرب کی بات نہیں۔ یہ ثقافتی استعمار ہے، جو ہر زبان، ہر قوم اور ہر خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔

پاکستانی نوجوان جو پنجابی بولنے سے شرمندہ ہوتا ہے، اپنے تاریخی لباس سے بیزار، اپنے دینی شعائر سے "پچھڑا" محسوس کرتا ہے اور "Cool" بننے کے لیے مغربی اصطلاحیں استعمال کرتا ہے۔ وہ دراصل ثقافتی حملے کا زخمی ہے۔

ہندوستان کی "بالی ووڈ اسٹریٹجی" بھی ایک کائنیٹک نہیں، سافٹ کل ہتھیار ہے۔ پہلے فلموں میں پاکستانی کردار کو دہشت گرد دکھایا، پھر دینی شعائر کو دقیانوسی قرار دیا اور اب مسلم ناموں کے پیچھے "کاسٹ" چھپائی جا رہی ہے۔

یہ ثقافتی حملے اس لیے کامیاب ہوتے ہیں کہ ان میں مزاح، رنگ، موسیقی، رومانوی داستانیں اور دلچسپی ہوتی ہے۔ لیکن ان کا زہر آہستہ آہستہ رگوں میں اترتا ہے اور ایک دن تم خود اپنے خلاف ہو جاتے ہو۔

دلچسپ بات یہ ہے سافٹ کل کے آلہ کار ہمارے اپنے ہی سادہ لوح لوگ ہیں۔ جنہیں سمجھ ہی نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کس کے لئے اور کس کے خلاف کر رہے ہیں۔ فائدہ کس کا اور نقصان کس کا کر رہے ہیں؟

ہر دور کے غدار، دشمن کی وردی میں نہیں آتے۔ کبھی وہ قلم ہاتھ میں لیے ہوتے ہیں، کبھی مائیک تھامے، کبھی پروفیسر کی کرسی پر اور کبھی عدالت کی بینچ پر بیٹھے۔ مگر ان کا ہدف وہی ہوتا ہے۔ اپنی قوم کا نظریاتی جنازہ پڑھوانا۔

پاکستان میں بہت سے ایسے "رہنما"، "دانشور" اور "ترقی پسند" لوگ منظرِ عام پر آئے جنہوں نے بیرونی نظریات کو اپنے ہی ملک میں آزادی، مساوات اور روشن خیالی کے نام پر نافذ کرنے کی کوشش کی۔

ایسے اینکرز جنہوں نے پاکستان کو ایک "حادثہ" کہا۔

ایسے لکھاری جنہوں نے دو قومی نظریہ کو "مذہبی تعصب" قرار دیا، ایسے ادارے جنہوں نے اسلامی اقدار کی حفاظت کو "انتہا پسندی" سے جوڑا۔ یہ سب سافٹ کل کے آلہ کار ہیں، خواہ شعوری طور پر ہوں یا لاشعوری طور پر۔

عالمی سطح پر افغانستان کی مثال دیکھیے۔ جب امریکہ وہاں داخل ہوا، صرف بم نہیں پھینکے، ساتھ اسکول، لٹریچر، میڈیا چینلز اور "ماڈرن کلچر" بھی لے کر آیا۔ وہاں کئی "مقامی آوازیں" پیدا ہوئیں، جو طالبان کی مخالفت میں مغرب کی زبان بولنے لگیں۔ مگر جیسے ہی افواج واپس گئیں، یہ آوازیں بھی خاموش ہوگئیں۔ یہ سب "مقامی آوازیں" دراصل بیرونی ایجنڈے کا داخلی ترجمان تھیں۔

سافٹ کل کی سب سے بھیانک بات یہ ہے کہ اس میں دشمن تمہاری شکل میں بولتا ہے، تمہاری زبان میں اور تمہارے بچوں کے کانوں میں زہر انڈیلتا ہے۔

اب ہم چلتے ہیں اس فکری سفر کے اگلے دو سنگِ میل کی طرف، جہاں جنگ کی جدید ترین شکلیں اُبھرتی ہیں اور "سافٹ" اور "کائینیٹک" کل کی حدیں مٹنے لگتی ہیں۔ یہ اب توپوں اور بیانیوں کی نہیں، ڈرونز اور ڈیجیٹل نفسیات کی جنگ ہے اور بدقسمتی سے، یہ جنگ ہماری گلیوں، ہمارے اسکولوں اور ہماری اسکرینوں پر لڑی جا رہی ہے۔

اب کائینیٹک کل کی جدید شکلیں بھی سامنے آئی ہیں جیسے ڈرون اور سائبر بمبار۔ کبھی گولیوں کی بارش سے شہر اجڑتے تھے، اب کلک کے ایک بٹن سے بستیاں مٹی ہو جاتی ہیں۔ یہ ہے "کائینیٹک کل" کی جدید شکل، جہاں دشمن نہ صرف آنکھ سے اوجھل ہوتا ہے، بلکہ جرم کے وقت وہ "انسان" نہیں، مشین ہوتا ہے۔

ڈرون حملے اس کی واضح مثال ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں، خصوصاً 2004 سے 2016 تک امریکہ نے تقریباً 400 سے زائد ڈرون حملے کیے۔ ان حملوں میں بظاہر دہشت گرد مارے گئے، مگر بےگناہ شہری، بچے، بزرگ اور مائیں بھی ان کا ایندھن بنے۔ یہ حملے کائینیٹک بھی تھے اور نفسیاتی بھی۔

کیونکہ اب دشمن آسمان سے آتا ہے، کوئی وارننگ نہیں، کوئی دفاع ممکن نہیں۔ یہ جنگ صرف جسم پر نہیں، ذہن پر حملہ کرتی ہے، کہ "تم محفوظ نہیں، تمہیں کوئی پناہ نہیں دے سکتا، تمہیں مزاحمت کا کوئی حق نہیں"۔ اسی طرح سائبر حملے آج کی دنیا میں "ڈیجیٹل بمبار" کی حیثیت رکھتے ہیں۔

2021 میں پاکستان کے کئی اہم حکومتی اور فوجی اداروں پر سائبر حملے کیے گئے۔ ڈیٹا چوری ہوا، خفیہ معلومات لیک ہوئیں اور پورا نظام لرز گیا۔ یہ حملے کسی سرحد پر نہیں ہوئے بلکہ کمانڈ رومز اور لیپ ٹاپس پر ہوئے۔ دشمن نظر نہیں آیا، مگر اثر اتنا ہی تباہ کن تھا جتنا کسی ایٹمی حملے کا ہو سکتا ہے۔ یہ ہے کائینیٹک کل کی نئی نسل، جہاں گولہ بارود کا شور نہیں، صرف سناٹا ہوتا ہے اور اسی سناٹے میں زندگیاں اجڑ جاتی ہیں۔

پھر ہائبرڈ وار ہے۔ جب سافٹ کل اور کائینیٹک کل یکجا ہوں۔ اب دشمن ایک طرف ڈرون سے حملہ کرتا ہے اور دوسری طرف تمہارے بچوں کو یہ سکھاتا ہے

کہ "مزاحمت دہشت گردی ہے"۔ ایک طرف تمہارے فوجیوں کو مارتا ہے، دوسری طرف تمہارے تعلیمی نصاب سے جہاد کا ذکر ختم کرواتا ہے۔ یہ ہے Hybrid War، جہاں "سافٹ" اور "کائینیٹک" کل ایک ساتھ حملہ کرتے ہیں اور ایک مکمل حکمتِ عملی کے تحت کرتے ہیں۔

پاکستان اس جنگ کا مرکزی ہدف رہا ہے۔ جب ضربِ عضب اور ردالفساد کے ذریعے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن ہوئے، تو دشمن نے سافٹ کل کا محاذ گرم کر دیا:

– نوجوانوں میں ریاست سے بیزاری۔

– علیحدگی پسند نظریات کی ترویج۔

– مذہبی شدت پسندی اور الحاد دونوں کا فروغ۔

– میڈیا پر قومی بیانیے کا مذاق۔

– اور سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کو نشانہ بنانا۔

اسی عرصے میں بلوچستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی RAW کے نیٹ ورکس نے کائینیٹک (دھماکوں، قتل) اور سافٹ (لسانی و نسلی نفرت) دونوں طریقوں سے فساد پھیلایا۔

یہ ہائبرڈ وار دشمن کی سب سے کامیاب حکمتِ عملی ہے۔ کہ وہ تمہیں صرف شکست ہی نہیں دیتا۔ بلکہ تمہیں خود تمہارے خلاف کھڑا کر دیتا ہے۔ تمہاری بندوق اس کے خلاف نہیں اٹھتی، بلکہ اپنے ہی اداروں، اپنے نظریے اور اپنے فخر پر تان لی جاتی ہے۔

جاری۔۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari