Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Soch Ka Qehat

Soch Ka Qehat

سوچ کا قحط

مطالعہ نہ کرنے والے دماغی قحط میں جیتے ہیں۔ دنیا کی تمام نعمتیں، اگر ایک پل کو انسان کے ہاتھ سے لے لی جائیں، تو وہ شاید کسی نہ کسی شکل میں دوبارہ حاصل ہو سکتی ہیں۔ لیکن اگر اُس سے سوچنے کی صلاحیت چھن جائے، تو وہ گوشت پوست کا محض ایک پیکر رہ جاتا ہے، ایک سانس لیتا ہوا ڈھانچہ، ایک خالی خول اور سوچنے کی یہ صلاحیت صرف ایک فطری تحفہ نہیں، بلکہ ایک مسلسل ریاضت، شعوری سفر اور عادتِ مطالعہ کی پروردہ ہوتی ہے۔

یہ کہنا کہ "جو لوگ مطالعہ نہیں کرتے، اُن کے پاس سوچنے کے لیے بہت کم باتیں ہوتی ہیں" کوئی سادہ سا جملہ نہیں، بلکہ ہمارے اجتماعی زوال کا آئینہ ہے، ایک فکری المیہ کی جھلک اور ایک ایسی سچائی ہے جو روح کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ انسان کے ذہن کی ساخت ایسی ہے کہ وہ جو کچھ دیکھتا، سنتا یا پڑھتا ہے، اُسے مختلف زاویوں سے پرکھتا ہے، اس میں ربط تلاش کرتا ہے، سوال اٹھاتا ہے، تضاد کو سمجھتا ہے اور پھر اُس سے ایک نیا خیال تراشتا ہے۔ مگر جب وہ مسلسل مطالعہ سے محروم رہے، تو اُس کی سوچ کا دائرہ محدود ہو جاتا ہے، خیالات ساکن ہو جاتے ہیں اور وہ محض ردِ عمل دینے والا ایک وجود بن جاتا ہے۔

وہ دوسروں کی لکھی ہوئی باتوں کو دہراتا ہے، دوسرے کے خیالات کو اپنی آواز میں بولتا ہے اور بعض اوقات اپنی بات کو دلیل کی بجائے آواز سے منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ مطالعہ دراصل وہ خاموش چراغ ہے جو اندھیرے میں روشن کیا جاتا ہے۔ یہ چراغ نہ صرف بیرونی دنیا کو منور کرتا ہے، بلکہ اندر کی تاریکیوں کو بھی اجالنے کی قوت رکھتا ہے۔ جب ہم کسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہم ایک وقت میں کئی زندگیوں کے تجربات، کئی صدیوں کی دانش اور کئی دلوں کی دھڑکنوں سے بیک وقت ہم کلام ہو رہے ہوتے ہیں۔

مطالعہ ہمیں وہ آنکھیں عطا کرتا ہے جو ظاہری بینائی سے ماورا ہیں۔ یہ وہ چشمِ بصیرت ہے جس سے ہم زمان و مکان کی حدود پھلانگ کر وہ کچھ دیکھنے لگتے ہیں جو ہماری ذات کے امکان سے باہر ہوتا ہے۔ مطالعہ کرنے والا شخص محض الفاظ کا اسیر نہیں ہوتا، وہ معانی کا متلاشی ہوتا ہے۔ ہر سطر کے پیچھے چھپی روح کو چھونے کی آرزو رکھتا ہے۔ وہ الفاظ کی سطح سے نیچے جا کر اُن کے پیچھے چھپے ہوئے درد، تجربے، محبت، سچائی اور جھوٹ کی تہوں میں غوطہ زن ہوتا ہے۔ اُس کی سوچ کا افق وسیع ہوتا چلا جاتا ہے اور اُس کی ذات میں برداشت، فہم، نرمی اور حکمت جنم لیتی ہے۔

ایسے شخص کے ساتھ اختلاف کرنا بھی ایک مہذب عمل محسوس ہوتا ہے، کیونکہ اُس کا اختلاف گالی نہیں ہوتا، دلیل ہوتا ہے۔ اُس کا رد، ہٹ دھرمی نہیں، فکری وضاحت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، وہ لوگ جو مطالعہ کی زحمت نہیں کرتے، یا کبھی کتاب کو صرف امتحان پاس کرنے کی غرض سے ہاتھ لگاتے ہیں، اُن کے ذہن وقت کے تھپیڑوں سے جلد تھک جاتے ہیں۔ وہ معاشرے کے شور میں اپنی الگ آواز پیدا نہیں کر پاتے۔ وہ دوسروں کی تحریروں اور تقریروں کے اسیر بن جاتے ہیں اور بعض اوقات اس درجہ غلام کہ انہیں خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ جو سوچ رہے ہیں، وہ اُن کا اپنا خیال نہیں بلکہ کسی اور کا بوسیدہ فلسفہ ہے جسے وہ لاشعوری طور پر اپنائے ہوئے ہیں۔ ایسے افراد معاشرے میں انتشار، شدت پسندی، تعصب اور جذباتی رویوں کا باعث بنتے ہیں۔ وہ نہ صرف خود غلط سمت میں بڑھتے ہیں، بلکہ دوسروں کو بھی غلط سمت دکھاتے ہیں۔

غور کیجیے، قرآن نے بار بار تدبر، تفکر، تذکر اور عقل کے استعمال کی دعوت دی ہے۔ یہ تمام اعمال صرف اس وقت ممکن ہیں جب انسان کے پاس سوچنے کا مواد موجود ہو اور یہ مواد مطالعہ سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ محض خیالی پروازیں یا سطحی جذبات، فکری گہرائی کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ سوچنے کے لیے علم چاہیے اور علم صرف سننے یا بولنے سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ پڑھنے سے، سمجھنے سے اور اس پر غور کرنے سے آتا ہے۔ مطالعہ نہ کرنا ایک طرح سے ذہنی بھوک میں جینے کے مترادف ہے۔ یہ ایسی بھوک ہے جو نہ جسم پر ظاہر ہوتی ہے اور نہ شکم پر، مگر یہ شخصیت کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔

ہم اس وقت ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں ظاہری ترقی کی رفتار تیز ہے، مگر فکری سطح پر خلا بڑھتا جا رہا ہے۔ لوگ بولنے سے پہلے سوچتے نہیں اور فیصلہ کرنے سے پہلے پڑھتے نہیں۔ نتیجہ یہ کہ جذباتی ہیجان میں فیصلے ہوتے ہیں اور فیصلے کے نتائج معاشرتی انتشار کی صورت میں نکلتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب کتاب کو ہاتھ میں لینا ایک روحانی عمل سمجھا جاتا تھا۔ جب مطالعہ کسی مخصوص مضمون یا پیشے کی حد تک محدود نہ تھا بلکہ ایک عمومی تہذیبی رویہ تھا۔ تب انسان اپنی ذات میں زیادہ گہرائی، دوسروں میں زیادہ وسعت اور دنیا میں زیادہ گنجائش رکھتا تھا۔ مگر اب مطالعہ ایک گمشدہ نعمت بنتی جا رہی ہے۔

موبائل کی اسکرین، سوشل میڈیا کے سرسری پیغامات اور یوٹیوب کی چند منٹ کی ویڈیوز نے کتاب کی گہرائی کو نگل لیا ہے۔ ہم وہ قوم بنتے جا رہے ہیں جو سرخی پڑھ کر رائے قائم کر لیتی ہے اور عنوان دیکھ کر فیصلہ سنا دیتی ہے۔ لیکن دنیا کے تمام بامقصد انقلابات، تمام زبردست فکری بیداریاں اور ہر بڑا شعوری ارتقاء، ہمیشہ مطالعہ سے شروع ہوا۔ مطالعہ نہ صرف انسان کو بدلتا ہے، بلکہ اُس کے ذریعے وہ دنیا بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ایک پڑھی لکھی سوچ خاموش بھی ہو تو روشنی بکھیرتی ہے اور ایک بے مطالعہ آواز چاہے کتنی ہی بلند ہو، وہ اندھیرے میں چیخ کے سوا کچھ نہیں۔

مطالعہ ہمیں ماضی سے جوڑتا ہے، حال کو سمجھنے کے قابل بناتا ہے اور مستقبل کی تشکیل میں مدد دیتا ہے۔ مطالعہ ایک ایسی کھڑکی ہے جو بند کمرے میں بیٹھے ہوئے انسان کو آسمانوں کی وسعت دکھاتی ہے۔ جو لوگ اس کھڑکی کو بند رکھتے ہیں، اُن کی سوچ دیواروں سے ٹکرا کر واپس آتی ہے اور وہ انہی محدود زاویوں میں خود کو برتر، مکمل اور حق پر سمجھنے لگتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں تعصب جنم لیتا ہے، تکبر پھیلتا ہے اور ذہنی جمود نسلوں کو نگلنے لگتا ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم خود سے سوال کریں: ہم نے آخری بار شعوری مطالعہ کب کیا؟ ہم نے کب کسی کتاب کے ساتھ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے خیالات کو اُس کے صفحات سے آراستہ کیا؟ ہم نے کب کسی خیال کو اپنے اندر اتار کر اس پر سوچنے کا عمل شروع کیا؟ اگر ہمیں ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے میں مشکل ہو رہی ہے، تو سمجھ لیجیے کہ ہمارے پاس سوچنے کے لیے بہت کم باتیں رہ گئی ہیں۔

مطالعہ صرف شوق نہیں، بقاء کا تقاضا ہے۔ یہ زندگی کو سطح سے نکال کر گہرائی میں لے جاتا ہے اور جو لوگ اس گہرائی سے محروم ہیں، وہ نہ صرف اپنی ذات کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں بلکہ اُس معاشرے کے ساتھ بھی جسے وہ اپنی رائے سے متاثر کرتے ہیں۔ یاد رکھیے، مطالعہ ایک چراغ ہے اور چراغ صرف اُس کے ہاتھ آتا ہے جو ہاتھ بڑھاتا ہے۔ اگر ہم نے ہاتھ نہ بڑھایا، تو پھر اندھیرے سے شکوہ کرنا بے معنی ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan