Qarz Mein Jakri Dunya Aur Khush Fehmi Ke Taj
قرض میں جکڑی دنیا اور خوش فہمی کے تاج

دنیا کی بڑی معیشتوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ایک عجیب تضاد سامنے آتا ہے۔ بظاہر ترقی یافتہ، طاقتور اور مستحکم نظر آنے والے ممالک دراصل قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ جدید طرزِ معیشت کی چمک دمک کے پیچھے ایک تلخ حقیقت چھپی ہے کہ دنیا کے امیر ترین ملک بھی بھاری قرضوں کے بغیر اپنی اقتصادی گاڑی نہیں چلا پا رہے۔ عالمی رپورٹوں کے مطابق امریکہ، جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور طاقت سمجھتا ہے، اس وقت تقریباً 76 ٹریلین ڈالر کے مجموعی قرض میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جس کے بارے میں دنیا سمجھتی ہے کہ وہ دوسروں کو قرض دیتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود سب سے زیادہ قرض لینے والا ملک بن چکا ہے۔
بھارت، جو اپنے آپ کو "دنیا کی پانچویں بڑی معیشت" قرار دینے پر فخر کرتا ہے، ہر بھارتی شہری کے ذمے تقریباً 504 ڈالر کا قرض دار ہے۔ مجموعی طور پر بھارت کے قرضوں کی مالیت 2.3 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بیانیے کو بری طرح چیلنج کرتے ہیں جو بھارتی حکومت اور میڈیا مسلسل پھیلاتے ہیں کہ بھارت معاشی طور پر بہت مستحکم اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اگر صرف قرضوں کے پیمانے پر دیکھا جائے تو بھارت اس وقت دنیا کی ساتویں بڑی "مقروض" معیشت ہے۔ ایک طرف غربت، بے روزگاری، زرعی بحران اور بڑھتی مہنگائی نے عام بھارتی کو نچوڑ رکھا ہے، دوسری طرف حکومتی پروپیگنڈا ایک خوشحال بھارت کا خواب دکھا کر حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔
پاکستان، جسے اکثر بین الاقوامی سطح پر معاشی کمزوری کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اس فہرست میں حیرت انگیز طور پر بھارت کے مقابلے میں کہیں بہتر پوزیشن پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر پاکستانی شہری کے ذمے اوسطاً 33 ڈالر کا قرض ہے۔ بظاہر یہ رقم بہت کم محسوس ہوتی ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک بڑا اشارہ ہے کہ پاکستان کے قرضے بھارت یا مغربی ممالک کی نسبت کہیں کم ہیں۔ اگر پاکستان کے مجموعی قرض کو جی ڈی پی کے تناسب سے دیکھا جائے تو صورتحال اتنی مایوس کن نہیں جتنی تاثر کے طور پر دکھائی جاتی ہے۔ ہماری اصل کمزوری قرض کی مقدار نہیں بلکہ قرض کے استعمال کے طریقہ کار میں ہے۔ ہم قرض لیتے ضرور ہیں مگر اسے پیداواری منصوبوں میں لگانے کے بجائے غیر ترقیاتی اخراجات، سیاسی دکھاوے اور سبسڈیوں میں ضائع کر دیتے ہیں۔ اگر یہی قرض سڑکوں، تعلیم، صحت، ٹیکنالوجی اور برآمدی صنعتوں میں لگایا جائے تو یہی قرض سرمایہ کاری بن سکتا ہے۔
اس فہرست کا سب سے دلچسپ اور حیران کن پہلو افغانستان ہے۔ وہ ملک جو دہائیوں سے جنگ، خانہ جنگی، تباہ حال انفراسٹرکچر اور بدترین اقتصادی بحران کا شکار رہا، اس کا مجموعی قرض صرف 1.8 بلین ڈالر ہے۔ یعنی اگر دنیا کے بڑے بڑے قرض دار ملکوں کے مقابلے میں دیکھا جائے تو افغانستان اس وقت سب سے کم مقروض ملک ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ افغانستان معاشی طور پر خوشحال ہے، بلکہ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ وہ مغربی طرز کی سودی معیشت اور بین الاقوامی قرضوں کے جال میں کم پھنسا ہوا ہے۔ وہاں کے حکمران اگر اپنے وسائل کو درست سمت میں استعمال کریں تو وہ قرض کی دلدل سے آزاد رہ سکتے ہیں۔
امریکہ، چین، جاپان، جرمنی، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک اگرچہ اپنی صنعتی طاقت اور برآمدی صلاحیت کے باعث بڑے معاشی مراکز ہیں، مگر ان کے قرضوں کی مقدار حیران کن ہے۔ جاپان، جس کی معیشت دنیا کی تیسری بڑی معیشت سمجھی جاتی ہے، اپنی جی ڈی پی کے مقابلے میں سب سے زیادہ قرض دار ملک ہے۔ یعنی وہاں قرض کا حجم ملکی پیداوار سے کئی گنا زیادہ ہو چکا ہے۔ یہی حال امریکہ کا ہے، جہاں فی کس قرض 260 ہزار ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ایک عام امریکی اگر پیدا ہونے کے ساتھ ہی قرض چکانے لگے تو وہ اپنی پوری زندگی میں بھی اس کا مکمل بوجھ ادا نہیں کر سکتا۔
یہ وہ نظام ہے جسے دنیا ترقی، خوشحالی اور معاشی استحکام کا نام دیتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ موجودہ عالمی مالیاتی ڈھانچہ ایک ایسے دائرے میں قید ہو چکا ہے جہاں قرض ہی معیشت کا ایندھن بن چکا ہے۔ عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے ترقی پذیر ممالک کو قرض دے کر ان پر اپنی شرائط مسلط کرتے ہیں۔ وہ شرائط اکثر ان ممالک کی خودمختاری اور معاشی آزادی کے خلاف ہوتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی ممالک نے اپنی پالیسیوں کو انہی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔
بھارت کی مثال لے لیجیے۔ "میک ان انڈیا" اور "ڈیجیٹل انڈیا" جیسے نعرے ضرور لگائے جاتے ہیں، مگر حقیقی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صنعتی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ روپے کی قدر گرتی جا رہی ہے، مہنگائی قابو سے باہر ہے اور بیروزگاری تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اس کے باوجود بھارتی میڈیا ایک مصنوعی بیانیہ بنا کر عوام کو یقین دلاتا ہے کہ بھارت دنیا کا معاشی نجات دہندہ بننے والا ہے۔ یہ وہی بیانیہ ہے جو کئی دہائیاں پہلے امریکہ اور یورپ نے عوام کو خواب دکھانے کے لیے استعمال کیا تھا۔ مگر آج وہی مغربی ممالک قرضوں کی گہرائی میں پھنسے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں میڈیا اور عوامی گفتگو کا زاویہ بھی اکثر مغربی بیانیے سے متاثر ہوتا ہے۔ ہم اپنے مسائل کو ضرور اجاگر کرتے ہیں، مگر دنیا کے دوسرے ممالک کے قرضوں اور ان کی کمزوریوں پر بات کم کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اپنی معیشت کو مقامی سطح پر مضبوط کرنے پر توجہ دیں، ٹیکس کے نظام کو منصفانہ بنائیں، درآمدات پر انحصار کم کریں اور زراعت و صنعت میں حقیقی اصلاحات کریں تو ہمیں نہ صرف قرضوں کی ضرورت کم پڑے گی بلکہ ہم معاشی خودمختاری کی طرف بڑھ سکیں گے۔
قرض لینا بذاتِ خود کوئی جرم نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ قرض کہاں اور کیسے استعمال ہوتا ہے۔ اگر قرض پیداواری شعبے میں لگایا جائے تو وہ قومی دولت میں اضافہ کرتا ہے، لیکن اگر وہ شاہ خرچیوں، سیاسی منصوبوں اور غیر ضروری سبسڈیوں میں ضائع ہو تو یہی قرض معیشت کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔ یہی فرق ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے درمیان موجود ہے۔ چین نے قرض لیا مگر اسے صنعتی ترقی اور عالمی سرمایہ کاری میں بدل دیا۔ جاپان نے قرض سے اپنی ٹیکنالوجی کو عروج دیا۔ جبکہ ہم نے قرض کو عارضی سہارا سمجھ کر وقتی مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا۔
دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں اب یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ محض اعداد و شمار کی چمک دھمک سے کوئی معیشت مستحکم نہیں ہوتی۔ حقیقی استحکام تب آتا ہے جب قوم اپنی ضروریات اور وسائل میں توازن پیدا کرے۔ اگر بھارت یا امریکہ جیسے ممالک قرض کے بوجھ سے نکلنے کی کوئی حقیقی منصوبہ بندی نہیں کرتے تو آنے والے سالوں میں یہ بڑے بڑے معاشی دیو بھی مالیاتی بحران کا شکار ہو سکتے ہیں۔
افغانستان کا مثال کے طور پر کم قرض دار ہونا ایک سبق ہے: معاشی آزادی قرض کم لینے سے آتی ہے، زیادہ ترقی کے شور سے نہیں۔ پاکستان کے لیے یہی موقع ہے کہ وہ اپنے مالیاتی ڈھانچے کو ازسرِ نو ترتیب دے، اپنے وسائل کو سمیٹے اور غیر ضروری قرضوں سے بچنے کی پالیسی اپنائے۔ دنیا کے شور سے متاثر ہونے کے بجائے ہمیں اپنی حقیقتوں کے مطابق راستہ طے کرنا چاہیے۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ خوشحالی کا معیار قرض کی مقدار نہیں بلکہ خود انحصاری کی صلاحیت ہے۔ وہ ملک خوش قسمت ہیں جو قرض کے بغیر اپنی ترقی کا سفر طے کرتے ہیں۔ باقی سب محض کاغذی معیشتوں کے مالک ہیں، جو اعداد و شمار میں امیر مگر حقیقت میں مقروض غلام ہیں۔

