Sunday, 14 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Pakistan Misl e Sura e Rehman

Pakistan Misl e Sura e Rehman

پاکستان مثلِ سورۂ رحمن

کبھی کبھی کسی عظیم انسان کی ایک چھوٹی سی بات اپنی پوری معنویت کے ساتھ برسوں بعد کھلتی ہے۔ حکیم محمد سعیدؒ کی وہ مشہور بات، "پاکستان سورۂ رحمن کی مثل ہے"، ہم میں سے اکثر نے سنی بھی ہوگی، دہرائی بھی، لیکن اس کی حقیقت کا ادراک شاید ہماری نظروں کے سامنے تب آیا جب وقت نے ہمیں پاکستان سے باہر پھینک کر دنیا کے نقشے کو مختلف زاویوں سے دیکھنے پر مجبور کیا۔ اُس وقت یہ جملہ محض ایک محبت بھرا دعویٰ یا ایک بلند آہنگ تشبیہ لگا تھا۔ ہم نے سوچا: کون سی نعمت؟ کون سی آسودگی؟ یہ ملک تو مسائل کے دھارے میں بہتا ہوا، الجھنوں میں گھرا ہوا، غربت، بے روزگاری، بدانتظامی، سیاسی انتشار اور اخلاقی زوال سے دوچار ملک ہے۔ یہ کیسے سورۂ رحمن کی مثل ہو سکتا ہے۔ وہ سورہ جو نعمتوں کے بیان کی انتہا ہے، جو رب کی سخاوت کا نظارہ ہے، جو شکر گزاری اور معرفت کا دروازہ ہے؟

لیکن وقت گزرتا ہے تو سمجھ پختہ ہوتی ہے۔ جب انسان سمندر پار دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے، شہروں کی چمک دیکھتا ہے مگر دل کے اندھیرے محسوس کرتا ہے، ترقی کی رفتار کو دیکھتا ہے مگر انسانی رشتوں کی ویرانی چھوتا ہے، معاشی استحکام دیکھتا ہے مگر روحانی بھوک کا تماشا بھی، تب اسے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان واقعی ایک نعمت ہے۔ وہ نعمت جسے ہم نے کبھی پہچانا ہی نہیں، جیسے ہم ہر روز سورج نکلتا دیکھتے ہیں مگر روشنی کی قدر اس وقت سمجھ آتی ہے جب ہم خود کو تاریک غار میں کھڑا پاتے ہیں۔ حکیم سعیدؒ نے کہا تھا کہ یہ ملک سورۂ رحمن کی طرح ہے اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نعمتوں کے ذکر کی ایک ایسی عملی تفسیر ہے جسے پڑھنے کے لیے صرف آنکھ نہیں، دل بھی چاہیے۔

کسی بھی ملک میں آپ چار موسم نہیں پاتے، اتنی زرخیز زمین نہیں پاتے، اتنی طویل دریا بردار دھرتی نہیں دیکھتے، اتنی متنوع تہذیبیں ایک چھتری کے نیچے نہیں ملتیں، اتنی کم قیمت زندگی، اتنا گرم جوش معاشرہ اور اتنی ماں جیسی مٹی شاید دنیا کے کسی کونے میں نہیں ملتی۔ پاکستان تضادات کا ملک ضرور ہے، مگر یہ تضادات بھی اس کی وسعت کا پتا دیتے ہیں۔ یہ ملک نعمتوں میں ڈوبا ہوا ہے مگر ہم نے اپنی نظروں کو آزمائشوں کے شیشے سے اتنا ڈھانپ لیا کہ ہمیں نعمتیں نظر آنا بند ہوگئیں۔ سورۂ رحمن میں بار بار پوچھا جاتا ہے فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان اور پاکستان ہر اس سوال کا جواب ہے جس میں انسان سے پوچھا گیا کہ "رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟"

پھر مئی 2025 کی وہ حیران کن جنگ یاد آتی ہے جس نے دنیا کو سکتے میں ڈال دیا۔ ایک چھوٹا سا ملک، جسے دنیا معاشی بحرانوں میں گھرا ہوا، قرضوں تلے دبا ہوا، سیاسی ہچکچاہٹوں میں پھنسا ہوا کہتی تھی، اس نے اپنے سے سات گنا بڑے دشمن کو آن واحد میں جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وہ دشمن جسے دنیا کی طاقتوں کی سیاسی، عسکری اور اخلاقی پشت پناہی حاصل تھی، جس کی فوج تعداد میں کہیں برتر، اسلحے میں کہیں آگے، ٹیکنالوجی میں کہیں زیادہ جدید اور سفارتی لحاظ سے دنیا کے طاقتور حلقوں میں گھری ہوئی تھی۔ لیکن جنگیں همیشه تعداد اور اسلحے سے نہیں جیتی جاتیں۔ جنگیں حوصلے، ایمان، ذہانت اور غیرت سے جیتی جاتی ہیں اور پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ہمارے اندر کوئی ایسی آگ ہے جس سے دنیا ابھی تک پوری طرح واقف نہیں۔

پاک فضائیہ نے جو کارنامہ اس رات رقم کیا، وہ تاریخ میں ہمیشہ سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا۔ رات کے اندھیروں میں ایسی خاموش، برق رفتار اور بے مثال کارروائی، ایسی حکمتِ عملی، ایسی جرات اور ایسا حیران کن تکنیکی کمال، دنیا کے جدید ترین فضائیہ رکھنے والے ممالک بھی ویسا مظاہرہ کبھی نہ کر سکے۔ یہ محض جنگی کامیابی نہیں تھی، یہ ایک اعلان تھا کہ پاکستان ایک معمولی ملک نہیں۔ اس کے محافظ معمولی لوگ نہیں۔ اس کی رگوں میں درد کی جگہ غیرت دوڑتی ہے اور اس کے دل میں مایوسی کی جگہ ایمان کی حرارت جاگتی ہے۔ یہ فتح پاکستان کی عسکری مہارت کا بھی ثبوت تھی اور اس قوم کی اجتماعی دعاؤں کا بھی نتیجہ۔

تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا حکیم سعیدؒ کی بات مبالغہ تھی؟ کیا ہم وطن کی محبت میں حد سے آگے نکل گئے؟ نہیں یہ مبالغہ نہیں، یہ معرفت ہے۔ یہ اس حقیقت کا بیان ہے جسے ہر پاکستانی محسوس تو کرتا ہے مگر الفاظ میں ڈھالنے سے ڈرتا ہے۔ پاکستان سورۂ رحمن کی طرح بار بار نعمتوں کا اعلان کرتا ہے، مگر ہم ان نعمتوں کو دیکھنے کے بجائے اپنی محرومیوں کا ماتم کرتے رہتے ہیں۔ یہاں نعمتیں بے شمار ہیں مگر ہم نے ان کی حفاظت و شکرگزاری کم اور شکایت زیادہ کی ہے۔ پاکستان کی عظمت اس کی فطرت میں ہے، اس کے جغرافیہ میں ہے، اس کے انسانوں میں ہے، اس کے حوصلے میں ہے، اس کی دعاؤں میں ہے۔

آخر میں، حقیقت صرف اتنی سی ہے کہ جس ملک نے اپنے پہلے ہی سالوں میں دنیا کے بڑے بڑے بحرانوں کے باوجود سر اٹھا کر جینا سیکھا، جو بیک وقت ایٹمی طاقت، زرعی قوت، ناقابلِ تسخیر دفاعی ڈھانچہ، تہذیبی ورثہ اور دینی جذبے کا مرکز ہو۔ ایسا ملک واقعی سورۂ رحمن جیسی عظیم سورت سے تشبیہ پانے کے قابل ہے۔ حکیم سعیدؒ درست تھے اور اب ہم بھی درست دیکھ رہے ہیں۔ یہ ملک صرف زمین کا ٹکڑا نہیں، یہ اللہ کی نعمتوں کا مظہر ہے، ایک امانت ہے، ایک رحمت ہے اور جس ملک کو رب نے اتنی عظمت عطا کی ہو، اسے کوئی طاقت زمین سے مٹا نہیں سکتی۔ یہاں اندھیرے کبھی غالب نہیں رہتے، یہاں ہمیشہ کوئی نہ کوئی سحر طلوع ہوتی ہے۔ یہ پاکستان ہے اور پاکستان ہمیشہ سورۂ رحمن کی ایک زندہ تصویر رہے گا۔

Check Also

Aik Anokha Hakeem

By Mumtaz Hussain