Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Muslim Elite Aur Muslim Street, Do Alag Dunyaen

Muslim Elite Aur Muslim Street, Do Alag Dunyaen

مسلم ایلیٹ اور مسلم سٹریٹ، دو الگ دنیائیں

ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، اس میں ایک کھلا تضاد روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ایک طرف عوام ہیں جنہیں ہم "مسلم سٹریٹ" کہہ سکتے ہیں اور دوسری طرف حکمران طبقہ ہے، جو خود کو "مسلم ایلیٹ" کہلواتا ہے۔ یہ دو طبقے اب ایک قوم نہیں رہے، بلکہ دو الگ دنیاؤں کے باسی بن چکے ہیں۔ ان کی ترجیحات، ان کا طرزِ زندگی، ان کی سوچ، ان کے خواب، ان کی حقیقتیں، سب کچھ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ خلیج اتنی گہری ہو چکی ہے کہ اسے محض الفاظ سے پاٹا نہیں جا سکتا۔ اب تو سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہم ایک امت ہیں یا صرف نام کی وحدت ہے؟

عوام روزمرہ کی زندگی میں مصائب کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ آٹا، چینی، گھی، بجلی، گیس۔ یہ بنیادی ضروریات اب خواب بن چکی ہیں۔ ایک مزدور روز صبح گھر سے نکلتا ہے کہ شام کو دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر سکے اور اسی تلاش میں اپنی زندگی کے بہترین دن کھپا دیتا ہے۔ کسی ماں کی دوائی پوری نہیں ہو پاتی، کسی بچے کی فیس دینے کے پیسے نہیں ہوتے، کسی جوان کی نوکری نہیں لگتی اور اگر قسمت سے نوکری لگ بھی جائے تو تنخواہ سے مہینہ پورا نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ایلیٹ طبقے کو دیکھیں، تو وہ دنیا کی سیر کر رہا ہوتا ہے، پُرتعیش دعوتوں میں مصروف ہوتا ہے اور مہنگے کلبوں، فائیو اسٹار ہوٹلوں اور محلات جیسے گھروں میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔

یہ وہ طبقہ ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھا ہے۔ انہی کے ہاتھوں میں فیصلے ہیں، انہی کے قلم سے حکم جاری ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ان کے فیصلے عوام کے لیے نہیں ہوتے، بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہوتے ہیں۔ وہ عوامی مسائل سے ناواقف ہیں اور اگر واقف بھی ہوں تو بے حس ہو چکے ہیں۔ ان کے لیے مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، تعلیم کی بربادی، یا صحت کی بدحالی، صرف ٹی وی کی خبریں ہیں یا کسی رپورٹر کی بریفنگ۔ ان کے گھروں میں جنریٹر ہیں، اے سی ہیں، ذاتی اسپتالوں میں علاج ہوتا ہے، ان کے بچے بیرونِ ملک پڑھتے ہیں، ان کی شادیاں دبئی، لندن، استنبول میں ہوتی ہیں اور ان کی خریداری فرانس، اٹلی اور نیویارک سے ہوتی ہے۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ تضاد کیوں پیدا ہوا؟ ہم تو ایک امت تھے، ایک رسول ﷺ کے ماننے والے، ایک کتاب کو ماننے والے، ایک کعبے کا رخ کرنے والے۔ پھر یہ طبقاتی تقسیم کیوں؟ اس کا جواب شاید ہمارے رویوں میں چھپا ہے۔ ایلیٹ طبقے نے اسلام کو صرف تقریروں، تقریبات اور تصویروں تک محدود کر دیا ہے۔ وہ رمضان میں فوٹو سیشن کروا کے افطار بانٹتے ہیں، زکوٰۃ کے چیک دیتے ہوئے مسکراتے ہیں اور حج و عمرہ کرکے فیس بک پر پوسٹ کرتے ہیں۔ لیکن ان کے دل سے خوفِ خدا نکل چکا ہے، ان کی آنکھوں میں عاجزی نہیں اور ان کے ہاتھوں میں عوام کے لیے کوئی سہارا نہیں۔

مسلم سٹریٹ، یعنی عام آدمی، ابھی تک اللہ سے جُڑا ہوا ہے۔ وہ مسجد جاتا ہے، بچوں کو قرآن پڑھواتا ہے، سحری و افطاری میں رزق کی فکرکے ساتھ دعائیں بھی کرتا ہے۔ وہ بیمار ہوتا ہے تو دوا سے زیادہ دُعا پر یقین رکھتا ہے۔ اس کے دل میں ابھی تک حضور ﷺ سے محبت ہے، وہ اذان کی آواز پر کان دھرتا ہے اور روتے ہوئے سجدے میں گِر جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک یہ سادگی، یہ دیانت، یہ دین داری، اس پر ظلم سہنے کی دلیل بنتی رہے گی؟

ایلیٹ طبقے نے اقتدار کو اپنے خاندانی ورثے میں بدل دیا ہے۔ سیاست اب عوامی خدمت نہیں، بلکہ بزنس بن چکی ہے۔ ووٹ لینے کے بعد پانچ سال عوام کو چکر لگوائے جاتے ہیں اور پھر اگلے انتخابات میں نئے جھوٹ، نئی تقریریں اور نئے نعرے لے کر میدان میں آتے ہیں۔ عوام کو امید دلائی جاتی ہے، لیکن ہر بار امید ٹوٹتی ہے، خواب بکھرتے ہیں اور حقیقت اور تلخ ہو جاتی ہے۔ کیا کبھی انہوں نے سوچا کہ ایک غریب آدمی کے لیے بیٹی کی شادی کا خرچ کیسے پورا ہوتا ہے؟ یا بیٹے کی کتابیں کیسے خریدی جاتی ہیں؟ نہیں، انہیں ان سوالات سے سروکار نہیں، کیونکہ ان کی دنیا الگ ہے۔

یہ خلیج اب صرف دولت کی نہیں رہی، یہ اقدار کی بھی ہو چکی ہے۔ ایلیٹ طبقے کے نزدیک کامیابی کا مطلب ہے بڑی گاڑی، بڑا بنگلہ، غیر ملکی شہریت اور عالمی کانفرنسز میں شرکت۔ جبکہ عوام کے لیے کامیابی صرف اتنی ہے کہ بچے بھوکے نہ سوئیں، کسی بیماری کا علاج وقت پر ہو جائے اور کسی ادارے میں عزت سے سنا جائے۔ یہ دو الگ پیمانے، دو الگ نظریے، دو الگ زندگیاں اور ہم انہیں ایک قوم کہتے ہیں؟ یہ کیسا مذاق ہے؟

ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر فاطمہ بنتِ محمد ﷺ بھی چوری کرے گی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا۔ یعنی قانون سب کے لیے برابر۔ لیکن ہمارے ہاں قانون صرف عوام کے لیے ہے، ایلیٹ طبقے کے لیے نہیں۔ ایک نوجوان سڑک پر حادثے میں مارا جائے تو مقدمہ درج نہیں ہوتا، لیکن کسی وزیر کا فون آ جائے تو تھانے دار ہٹا دیا جاتا ہے۔ ایک بیوہ اپنی زمین کے کاغذات کے لیے دس سال عدالتوں کے چکر لگاتی ہے اور ایک طاقتور جاگیردار دو دن میں سارے فیصلے اپنے حق میں لے لیتا ہے۔ یہ کیسی ریاستِ مدینہ ہے جس کا خواب ہم روز سنتے ہیں؟

مسلم سٹریٹ اب مایوس ہو چکی ہے، لیکن اس کی امید اب بھی اللہ سے جُڑی ہوئی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ ظالم کا انجام برا ہوتا ہے اور حق کبھی مٹتا نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کب؟ کب تک ہم برداشت کریں؟ کب انصاف آئے گا؟ کب حکومت، حکومت کی طرح چلے گی؟ کب ایلیٹ طبقہ عوام کی زندگی میں شریک ہوگا؟ کب وہ خود ہسپتال جائیں گے؟ کب ان کے بچے بھی سرکاری اسکولوں میں پڑھیں گے؟ کب وہ خود بھی لوڈشیڈنگ جھیلیں گے؟ کب وہ راشن لینے کے لیے قطار میں لگیں گے؟ اور اگر ایسا ممکن نہیں تو کیا ہم ایک قوم کہلانے کے لائق ہیں؟

اگر حکمرانوں کا دل واقعی عوام کے لیے دھڑکتا ہے تو وہ صرف تقریریں نہ کریں، عمل سے بھی ثابت کریں۔ وہ عوامی مسائل کو سمجھیں، ان کے درمیان وقت گزاریں اور اپنے فیصلوں میں ان کی بہتری کو اولیت دیں۔ وگرنہ وہ وقت دور نہیں جب عوام کا صبر ٹوٹے گا اور تاریخ گواہ ہے کہ جب عوام اٹھتے ہیں تو ایوان ہل جایا کرتے ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے گریبان میں جھانکیں۔ مسلم ایلیٹ کو سوچنا ہوگا کہ کیا وہ واقعی اپنے رب کو جواب دہ ہونے پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ ہر عمل کا حساب دینا ہوگا؟ اور مسلم سٹریٹ کو بھی اپنی خاموشی کو طاقت بنانا ہوگا۔ انہیں اپنے ووٹ، اپنی آواز، اپنی وحدت کا ادراک کرنا ہوگا۔ وگرنہ ایلیٹ طبقہ ہر بار انہیں جھانسہ دے کر دوبارہ انہیں اندھیروں میں دھکیل دے گا۔

یہ کالم نہ کسی سیاسی جماعت کے خلاف ہے، نہ کسی فرد کے خلاف۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم سب کو اپنا چہرہ دیکھنا ہے۔ اگر ہم واقعی ایک امت ہیں، تو اس تضاد کو ختم کرنا ہوگا۔ ایلیٹ اور سٹریٹ کو ایک سوچ، ایک منزل، ایک درد، ایک دعا اور ایک ذمہ داری کے ساتھ جُڑنا ہوگا۔ تبھی ہم کہہ سکیں گے کہ ہم واقعی مسلم اُمّہ ہیں، ورنہ ہم صرف بھیڑیں ہیں جو چرواہے کے اشارے پر چلتی ہیں اور ذبح ہونے کے بعد بھی احتجاج نہیں کرتیں۔

آخر میں یہ دعا کہ اللہ ہمارے دلوں کو محبت سے جوڑ دے۔ نفرت اور تکبر کا قلع قمع ہو۔ عاجزی اور انکساری کا بول بالا ہو۔ ہم ایک دوسرے کو سلام کرنے والے بنیں۔ ایک دوسرے کو دعا دینے والے بنیں۔ اپنے دین، اپنے اللہ اور اپنے ملک کے کام کرنے والے بنیں۔ دنیا اور انسانیت کے مددگار بنیں۔ دنیا سے ظلم اور جنگ ختم کرنے کا ذریعہ بنیں۔ امن کے قیام کے ضامن بنیں۔ مسلم ایلیٹ اور مسلم سٹریٹ صرف مسلم سٹریٹ بنے۔ محبت اور امن و آتشی کی گلی بنے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan