Muashi Boycott, Aik Qadeem Hathkanda Jo Aaj Bhi Zinda Hai
معاشی بائیکاٹ، ایک قدیم ہتھکنڈا جو آج بھی زندہ ہے

قرآن نے انسان کے چہرے پر پڑے کئی نقاب نوچ کر اسے آئینے میں لا کھڑا کیا ہے۔ ان میں ایک چہرہ نفاق کا ہے، جو کبھی چادرِ تقویٰ اوڑھ کر آتا ہے اور کبھی غمِ اُمت کا لبادہ اوڑھ کر۔ سورۃ المنافقون کی ساتویں آیت ہمیں نفاق کے ایک انتہائی مکروہ اور خطرناک پہلو سے متعارف کراتی ہے: معاشی بائیکاٹ۔ "اللہ کے رسول کے پاس جو لوگ ہیں، ان پر خرچ نہ کرو تاکہ وہ منتشر ہو جائیں"۔
یہ وہ سازش ہے جو مدینہ کے منافقوں نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف رچائی، اس امید پر کہ اگر مہاجرین کو مالی مدد سے محروم کر دیا جائے تو وہ واپس مکہ پلٹ جائیں گے یا کم از کم نبی ﷺ کی طاقت کمزور ہو جائے گی۔ یہ ناپاک ارادہ ایک ایسے زمانے میں ظاہر ہوا جب اسلامی جماعت اپنی ابتدائی تعمیر کے نازک مرحلے سے گزر رہی تھی اور اسے اخلاص، ایثار، بھائی چارے اور مالی تعاون کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ معاشی بائیکاٹ صرف ایک عمل نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے۔ یہ صرف "کسی پر خرچ نہ کرنا" نہیں بلکہ "کسی کو معاشی لحاظ سے بے بس اور مجبور کر دینا" ہے تاکہ وہ جھک جائے، ٹوٹ جائے، یا بکھر جائے۔ یہ نفاق کا وہ چہرہ ہے جو تلوار کی دھار سے زیادہ تیز اور تیر کی نوک سے زیادہ گہرا زخم دیتا ہے۔ یہ ایسی چال ہے جو بظاہر کسی ظاہری جنگ کے بغیر لڑی جاتی ہے، لیکن اس کے نتائج خونریزی سے کم نہیں ہوتے۔
آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں، وہاں یہ ہتھکنڈا پہلے سے کہیں زیادہ جدید، پیچیدہ اور مہلک ہو چکا ہے۔ آج کی دنیا میں بین الاقوامی ادارے، ملٹی نیشنل کمپنیاں، سوشل میڈیا کمپینز اور حکومتی پالیسیاں، سب کسی نہ کسی شکل میں معاشی بائیکاٹ کے جدید اوزار بن چکے ہیں۔ جب کسی ملک، قوم، نظریے یا فرد کو کمزور کرنا ہوتا ہے تو پہلا وار اس کے معاش پر کیا جاتا ہے۔ اس کی تجارت بند، اس کے بنکنگ چینل منقطع، اس کے کاروباری شراکت دار الگ، اس کی کرنسی بے وقعت اور اس کے شہریوں پر پابندیاں۔ مقصد وہی پرانا: "ان پر خرچ بند کرو تاکہ یہ منتشر ہو جائیں"۔
فلسطین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ غزہ کے عوام پر کئی دہائیوں سے معاشی بائیکاٹ مسلط ہے۔ اسرائیلی حکومت نے غزہ کو ایک بڑے قید خانے میں بدل دیا ہے۔ سمندر، زمین اور فضا، سب پر پابندیاں۔ نہ باہر سے مال آ سکتا ہے، نہ اندر سے باہر جا سکتا ہے۔ یہ بائیکاٹ صرف راشن کی روک تھام نہیں، بلکہ ایک پوری نسل کی معاشی، تعلیمی اور ذہنی تباہی کا منصوبہ ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ بین الاقوامی "قانون" کے پردے میں ہوتا ہے، اقوامِ متحدہ کی خاموشی میں لپٹا ہوا اور انسانی حقوق کے "علَم برداروں" کی بےحسی میں چھپا ہوا۔
اسی طرح مسلم ممالک پر معاشی دباؤ کے ذریعے ان کی پالیسیوں کو قابو میں لانا اب ایک معمول کی بات ہے۔ کسی ملک نے اگر فلسطین یا کسی دوسرے مظلوم کے حق میں آواز اٹھائی، تو عالمی مالیاتی ادارے قرض روکتے ہیں، بیرونی سرمایہ کاری کھینچ لی جاتی ہے، یا اس ملک کی کرنسی کو مصنوعی بحران میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ پرامن بائیکاٹ کے نام پر نہیں، بلکہ معاشی دہشت گردی کے طور پر ہوتا ہے۔ مگر اسے "سفارتی دباؤ"، "عالمی نظم"، یا "استحکام کی کوشش" جیسے خوشنما الفاظ میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔
دلچسپ اور دردناک بات یہ ہے کہ یہ ہتھکنڈا صرف کفار یا عالمی طاقتوں تک محدود نہیں رہا۔ اب امتِ مسلمہ کے اندر بھی یہ ایک معروف طریقہ بن چکا ہے۔ اگر کوئی فرد یا تنظیم کسی دوسرے نظریاتی گروہ سے مختلف سوچ رکھتا ہے، تو اس کے خلاف معاشی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ اس کی کتب کو بازار سے ہٹا دیا جاتا ہے، اس کی تقریریں بین کر دی جاتی ہیں، اس کے اداروں پر مالی امداد روک دی جاتی ہے، یہاں تک کہ عام مسلمانوں کو اس کے ساتھ تعلق رکھنے سے روکا جاتا ہے۔ یوں نفاق کا وہی چہرہ، جو مدینہ میں عبداللہ بن ابی کے ہونٹوں پر آیا تھا، آج پھر امت کے مختلف گروہوں کے ہونٹوں پر آ چکا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب یہ نعرے تقویٰ کے پردے میں لگائے جاتے ہیں۔
اس سارے منظرنامے میں سب سے تکلیف دہ چیز یہ ہے کہ آج کے مسلمان اکثر اس ہتھکنڈے کو "حکمتِ عملی" یا "حفاظتی اقدام" سمجھ کر اپناتے ہیں۔ کوئی مسلمان کسی غیر مسلم برانڈ کے بائیکاٹ کی بات کرے تو یہ ٹھیک، لیکن اگر کوئی عالم یا ادارہ حق گوئی کی بنیاد پر معاشی بائیکاٹ کا شکار ہو تو ہم خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ قرآن نے ان لوگوں کو "لا یفقہون" کہا ہے یعنی وہ لوگ جو سمجھتے ہی نہیں کہ اصل اختیار، اصل رزق اور اصل طاقت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب تم کسی پر خرچ بند کرتے ہو تو تم اس کے رزق کے دروازے نہیں بند کر رہے ہوتے، بلکہ اپنے نصیب کے دروازے خود پر بند کر رہے ہوتے ہو۔
معاشی بائیکاٹ اگر خیر کے لیے ہو، مظلوم کی حمایت میں ہو، ظلم کے خلاف ہو اور کسی طاغوتی قوت کو اس کی جگہ دکھانے کے لیے ہو، تو یہ عبادت بن سکتا ہے۔ جیسے رسول اللہ ﷺ نے یہود کے بعض قبیلوں سے اقتصادی تعلقات منقطع کیے، یا جیسے مدینہ کے بازاروں میں مسلمانوں کو اپنے الگ تجارتی نظام بنانے کی ترغیب دی۔ مگر اگر یہی عمل صرف دشمنی، مخالفت، حسد یا گروہی تعصب پر مبنی ہو، تو یہ نفاق کے زمرے میں آتا ہے، جس کی قرآن نے مذمت کی ہے۔
کیا ہمیں یاد ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا: "صدقہ مال کو کم نہیں کرتا" اور کیا ہمیں یقین ہے کہ کسی پر خرچ کرنے سے ہم غریب نہیں ہو جاتے اور کسی کا رزق روکنے سے ہم امیر نہیں ہو جاتے؟ اگر یہ یقین پیدا ہو جائے، تو پھر کوئی معاشی بائیکاٹ کسی مظلوم کو بے بس نہیں کر سکتا۔ لیکن جب ایمان کمزور ہوتا ہے، تو لوگ خود کو خدا سمجھنے لگتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ "ہم اگر نہ دیں تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا"۔ یہ نفاق کا وہی زہر ہے جو مدینہ کے منافقوں میں تھا اور آج کے بڑے بڑے معاشی طاقتوں میں بھی ہے۔
ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ رزق کا کنٹرول کسی فرد، ادارے یا ملک کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جو اللہ کے لیے خرچ کرتا ہے، اللہ اسے کئی گنا واپس دیتا ہے اور جو اللہ کے دین، اللہ کے رسول اور اللہ کے ولیوں پر خرچ کرنے سے گریز کرتا ہے، وہ اپنے لیے ہی خزانے بند کر لیتا ہے۔
آج کے دور میں، جب دنیا تیزی سے معاشی جنگ کا میدان بن چکی ہے، ہمیں قرآن کے اس سبق کو تازہ کرنا ہوگا کہ دشمن تمہیں معاشی بائیکاٹ کے ذریعے بکھیرنا چاہے گا، کمزور کرنا چاہے گا، مگر تمہیں متحد، باہمی تعاون اور اللہ پر توکل کے ساتھ کھڑے رہنا ہے۔ مہاجرین اور انصار کے درمیان مالی ایثار اور بھائی چارہ، جس نے مدینہ میں ایک نئی تہذیب کو جنم دیا، وہی آج بھی امت کو بکھرنے سے بچا سکتا ہے۔
بائیکاٹ کی طاقت کو دشمن سے چھین کر مظلوم کی ڈھال بنانا ہوگا۔ ہمیں بائیکاٹ کرنا ہے اُن کمپنیوں کا جو ظلم کو سہارا دیتی ہیں، اُن اداروں کا جو ہمارے عقائد و اقدار کو مجروح کرتے ہیں اور اُن نظریات کا جو ہمیں ہماری اصل سے کاٹتے ہیں۔ لیکن ہمیں ہرگز ہرگز اس طاقت کو اپنے ہی بھائیوں کے خلاف استعمال نہیں کرنا، محض اس لیے کہ ان کی سوچ ہم سے مختلف ہے۔
یاد رکھیں، نفاق صرف ایمان کی کمی کا نام نہیں، بلکہ وہ ذہنیت ہے جو بظاہر دین کے پردے میں، دین کو ہی نقصان پہنچاتی ہے اور اس کی سب سے پرانی اور کارگر شکل، معاشی بائیکاٹ، آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب وہ جذبات، تعصب، خوف اور پراپیگنڈے کے لباس میں آتی ہے۔ ہمیں آنکھیں کھول کر، قرآن کے آئینے میں خود کو اور دنیا کو دیکھنا ہوگا، ورنہ ہم بھی نفاق کے کسی پردے کا حصہ بن سکتے ہیں، چاہے ہمیں اس کا شعور نہ ہو۔

