Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Mahal Ke Aansu

Mahal Ke Aansu

محل کے آنسو

قربانی صرف کسی جانور کے ذبح کا نام نہیں، یہ زندگی کے ہر موڑ پر ہمارے سامنے آنے والا وہ لمحہ ہے جب ہم اپنی خواہش، آرام، سہولت، یا خواب کو دوسروں کی خاطر ترک کرتے ہیں۔ یہ لمحہ چھوٹا ہو یا بڑا، ہر انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرور آتا ہے۔ کسان اپنی نیند کی قربانی دیتا ہے، مزدور اپنا خون پسینہ بہاتا ہے، ماں اپنی جوانی اور سکون قربان کرتی ہے، باپ اپنی خواہشات کو دفن کرتا ہے، طالب علم اپنی نیند اور کھیل کی قربانی دیتا ہے اور سپاہی اپنی جان ہتھیلی پر رکھتا ہے۔

ہر کوئی کسی نہ کسی طرح سے قربانی دے رہا ہوتا ہے۔ مگر مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم صرف اپنی قربانی کو دیکھتے ہیں، بس اپنی قربانی کا غم مناتے ہیں اور دوسروں کی قربانیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ وہ ہمیں نظر ہی نہیں آتیں، کیونکہ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے گزرنے کے باوجود بھی کسی پردے کے پیچھے چھپی ہوتی ہیں، جیسے کسی محل کے بلند و بالا دروازوں کے پیچھے چھپی شاہی زندگی۔

ہم نے ہمیشہ یہ تصور کیا ہے کہ شاہی خاندان کی زندگی سہولتوں سے بھرپور، ہر فکر سے آزاد اور ہر دکھ سے دُور ہوتی ہے۔ قیمتی لباس، محلوں میں قیام، دنیا بھر کی توجہ، پروٹوکول اور بے حساب دولت، کیا کسی انسان کو اور کچھ چاہیے؟ ہم شاید سوچتے ہیں کہ جس کے پاس تاج ہے، اُسے دل کے درد کا کیا پتہ؟ مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جس کے سر پر تاج ہوتا ہے، اُس کے کندھوں پر قوموں کی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں اور کبھی کبھی وہ اپنی ذات کی سب سے قیمتی خوشیوں کو قربان کرکے اپنے منصب کو نبھاتا ہے۔

ایسی ہی ایک خاموش، مگر نہایت گہری قربانی کا لمحہ آنے کو ہے، جب برطانیہ کے ولی عہد، شہزادہ ولیم اور ان کے بیٹے شہزادہ جارج، ایک ایسی دیوار کے دونوں جانب کھڑے ہوں گے جس کا نام ہے "شاہی روایت"۔ اس روایت کے مطابق، تخت کے وارث ایک ساتھ سفر نہیں کر سکتے، تاکہ اگر کوئی حادثہ پیش آ جائے تو تاج کی جانشینی متاثر نہ ہو۔ یہ اصول صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسے شہزادہ جارج کی زندگی پر لاگو کیا جائے، وہ جارج جو اب بارہ برس کا ہونے والا ہے اور جس کی زندگی کا وہ دور شروع ہونے والا ہے جہاں بچپن کی معصومیت، باپ کی انگلی تھامے دنیا گھومنے کے لمحے اور خاندانی خوشیوں کی آزاد پرواز، شاہی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبنے والی ہے۔

تصور کریں، ایک بارہ سالہ بچہ، جو اب تک اپنے والد کے ساتھ سفر کرتا رہا، اُن کے پہلو میں بیٹھ کر ہوائی جہاز کی کھڑکی سے بادلوں کو دیکھتا رہا، اُن کی موجودگی میں خود کو محفوظ سمجھتا رہا، اب اُس سے کہا جائے گا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ ایک ہی پرواز میں سفر نہیں کر سکتا۔ صرف اس لیے کہ وہ شاہی خاندان کی جانشینی میں دوسرا نمبر ہے۔ یہ اصول بظاہر عقل اور تحفظ کے تقاضوں کے مطابق ہے، مگر ایک بچے کے دل میں جو خالی پن، جو اداسی اور جو سوالات جنم لیتے ہیں، اُن کا کوئی قاعدہ، کوئی روایت اور کوئی اصول جواب نہیں دے سکتا۔

شہزادہ ولیم کے لیے یہ فیصلہ کرنا شاید آسان نہ ہو۔ ایک باپ کے طور پر وہ بھی چاہتے ہوں گے کہ اُن کا بیٹا اُن کے ساتھ رہے، اُن کے ساتھ سفر کرے، اُن کی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھے۔ مگر ایک ولی عہد کے طور پر اُنہیں معلوم ہے کہ وہ صرف ایک باپ نہیں ہیں، وہ ایک منصب کے امین بھی ہیں۔ اُن کی ذات ایک فرد نہیں، ایک ادارہ ہے، جس کے ہر عمل اور ہر قدم پر دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ اس لیے اُنہیں وہی کرنا ہوگا جو صدیوں سے ہوتا آیا ہے، ایک روایت کو نبھانا، چاہے اُس میں دل کے جذبات روندنے پڑیں۔

یہ فیصلہ صرف سفر کا نہیں، یہ ایک مکمل طرزِ زندگی کا اعلان ہے۔ شہزادہ جارج کی زندگی اب اُس عام بچے کی نہیں رہے گی جو اسکول جاتا ہے، دوستوں کے ساتھ کھیلتا ہے، والدین کے ساتھ چھٹیوں پر جاتا ہے اور ہر لمحہ بے فکری سے جیتا ہے۔ اب اُسے سیکھنا ہوگا کہ اُس کے ہر عمل کی ایک گونج ہوگی، ہر قدم کا اثر ہوگا اور ہر مسکراہٹ ایک ذمہ داری کی علامت ہوگی۔ اب وہ مستقبل کے بادشاہ کی ٹریننگ کا باقاعدہ آغاز کرے گا، جس میں ذاتی زندگی بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔

ایسا نہیں کہ یہ سب اُسے مجبوراً کرنا ہوگا، شاہی خاندان کی تربیت میں یہ بات شامل کی جاتی ہے کہ فرض کو محبت کی طرح نبھایا جائے اور قربانی کو فخر سمجھا جائے۔ مگر پھر بھی، بچپن میں باپ سے الگ ہونا، صرف اس لیے کہ آپ مستقبل کے بادشاہ ہیں، ایک ایسا دکھ ہے جو شاید الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا۔

کیا کبھی ہم نے سوچا کہ یہ سب کچھ دیکھنے والے باقی بچے، شارلٹ اور لوئس، کیا محسوس کرتے ہوں گے؟ اُن کے لیے بھی یہ سب عجیب ہوگا۔ ایک بھائی جو اُن کے ساتھ کھیلتا ہے، ہنستا ہے، اب اُن سے الگ نظر آئے گا۔ وہ اُن سے مختلف ہو جائے گا، کیونکہ اُس کی زندگی کا راستہ کچھ اور ہوگا۔ یہ فرق اُسے بھی محسوس ہوگا اور اُنہیں بھی۔ مگر شاہی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے، جہاں تعلقات بھی روایات کے تابع ہوتے ہیں اور خوشیاں بھی اصولوں کی زنجیروں میں بندھی ہوتی ہیں۔

ہم جو عوام ہیں، ہم اکثر شاہی خاندانوں کی زندگی کو رشک سے دیکھتے ہیں۔ اُن کے محل، لباس، تقریبات اور عالمی پروٹوکول ہمیں لبھاتے ہیں۔ ہم اُن کی زندگی کے چمکدار پہلوؤں پر نظر رکھتے ہیں، مگر اُن کے دکھوں کو دیکھنے کی نہ ہمیں فرصت ہے، نہ شاید ہمیں اس کا شعور۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر مسکراہٹ کے پیچھے ایک قربانی چھپی ہوتی ہے اور ہر تاج کے نیچے ایک تھکا ہوا سر ہوتا ہے۔

بارہ سال کی عمر میں باپ کے پہلو سے جدا ہو کر صرف ایک روایت کے لیے خود کو تیار کرنا، یہ ایک معمولی قربانی نہیں۔ یہ ایک ایسی قربانی ہے جو خاموشی سے دی جاتی ہے، بغیر کسی طبل و علم کے اور بغیر کسی داد کے۔ شہزادہ جارج کی یہ قربانی ایک یاد دہانی ہے کہ بڑی ذمہ داریاں ہمیشہ بڑے دل مانگتی ہیں اور بچپن کی معصومیت بھی کبھی کبھی شاہی روایتوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔

ہمیں بطور انسان یہ سیکھنا چاہیے کہ دنیا میں ہر کسی کی قربانی اہم ہوتی ہے، چاہے وہ ہمارے طبقے سے ہو یا کسی محل کے باسی ہوں۔ دوسروں کے درد کو سمجھنا، اُن کے جذبوں کی قدر کرنا اور اُن کی خاموشیوں کو سننا، یہ انسانیت کا اصل حسن ہے۔

شاہی قربانی شاید ہماری روزمرہ زندگی سے مختلف ہو، مگر اُس کا درد اتنا ہی سچا ہے جتنا ایک عام باپ اور بیٹے کے درمیان فاصلہ پیدا ہونے کا دکھ اور شاید یہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ منصب، مرتبہ اور رتبہ، اگرچہ اہم ہوتے ہیں، مگر قربانی کی شدت سب کے لیے برابر ہوتی ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan