Tuesday, 16 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Kundal Khokhran Se Oxford Tak, Jabir Ali Ki Uran

Kundal Khokhran Se Oxford Tak, Jabir Ali Ki Uran

کُنڈل کھوکھراں سے آکسفورڈ تک، جابر علی کی اڑان

یہ کہانی کسی افسانے کی طرح لگتی ہے مگر یہ حقیقت ہے، وہ حقیقت جو ہمارے معاشرے میں امید کے چراغ جلاتی ہے۔ کُنڈل کھوکھراں کا جابر علی، ایک ایسا بچہ جس کے پاؤں میں سکول جانے کے لیے جوتے تک نہیں تھے، مگر آنکھوں میں خواب تھے اور وہ خواب بھی ایسے کہ ننگے پاؤں زمین پر چلتے ہوئے آسمان چھو لینے کی جرأت رکھتے تھے۔ یہ کہانی غربت کے اندھیرے میں جلتے اس چراغ کی ہے جسے ہوا بجھا نہ سکی، حالات توڑ نہ سکے، محرومیاں جھکا نہ سکیں۔ یہ ماں کی دعا، بچے کے یقین اور مسلسل جدوجہد کی وہ داستان ہے جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل دولت جیب میں نہیں، دل اور دماغ میں ہوتی ہے۔ جابر علی کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اگر نیت صاف ہو، مقصد واضح ہو اور اللہ پر یقین پختہ ہو تو ننگے پاؤں چلنے والا بھی علم کی بلند ترین چوٹیوں تک پہنچ سکتا ہے۔

یہ سب اُس دن سے شروع ہوا جب ایک ماں نے غربت کی پروا کیے بغیر، سماج کے طعنوں سے بے نیاز ہو کر، اپنے لختِ جگر کو ننگے پاؤں سکول بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ماں جس کے پاس بیٹے کو دینے کے لیے جوتے نہیں تھے، مگر دعا تھی، یقین تھا اور اللہ پر کامل بھروسا تھا۔ اس نے بیٹے کو یہ نہیں کہا کہ حالات ٹھیک ہو جائیں تو پڑھنا، اس نے یہ نہیں سوچا کہ لوگ کیا کہیں گے، اس نے صرف یہ کہا کہ جا، پڑھ، اللہ تیرے ساتھ ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا جہاں سے جابر علی کی اصل تعلیم شروع ہوئی، نصاب کی نہیں بلکہ حوصلے، صبر اور خود اعتمادی کی تعلیم۔ ننگے پاؤں سکول جانا اُس کے لیے شرمندگی نہیں، اعزاز بن گیا۔ وہ جان گیا کہ اگر راستہ کٹھن ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ منزل ناممکن ہے۔ غربت اس کے لیے بوجھ نہیں بنی بلکہ اس نے اسے اپنی اڑان کا ایندھن بنا لیا۔

وقت گزرتا گیا، مشکلات بڑھتی گئیں، مگر جابر علی کا عزم مضبوط ہوتا چلا گیا۔ اس نے محرومیوں کو شکوہ بنانے کے بجائے سوال بنا لیا اور سوال کو تحقیق کا راستہ سمجھ لیا۔ وہ نوجوان ثابت ہوا جس نے ہر رکاوٹ کو سیڑھی بنا کر استعمال کیا۔ تعلیمی میدان میں اس کی محنت رنگ لانے لگی، مگر راستہ ابھی آسان نہیں تھا۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے دروازے کھٹکھٹائے، درخواستیں دیں، خواب آنکھوں میں سجائے رکھے، مگر جواب میں اکثر انکار ملا۔ ستر بار ناکامی اس کا مقدر بنی۔ ستر بار کسی اور کے لیے یہ تعداد کافی ہوتی کہ وہ ہمت ہار بیٹھے، خود کو قسمت کے حوالے کر دے، مگر جابر علی کے اندر بیٹھا یقین کہتا رہا: "میں جو سوچ سکتا ہوں، وہ ہو سکتا ہے"۔ وہ ناکامی سے نہیں گھبرایا، اس نے ہر انکار کو اپنی تیاری کا حصہ سمجھا، ہر ردّ کو خود کو بہتر بنانے کا موقع جانا۔ یہی وہ مقام تھا جہاں اس کا ایمان محض لفظ نہیں رہا، عمل بن گیا۔

بالآخر وہ دن آیا جب محنت، یقین اور دعا نے مل کر معجزہ دکھایا۔ پاکستان آکسفورڈ پروگرام کے تحت جابر علی کو دنیا کی عظیم ترین درسگاہ، آکسفورڈ یونیورسٹی میں سو فیصد اسکالرشپ پر داخلہ مل گیا۔ وہی جابر علی، جو کبھی ننگے پاؤں سکول جاتا تھا، آج آکسفورڈ کی قدیم اور باوقار عمارتوں میں علم کی جستجو کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ صرف ایک طالب علم کی کامیابی نہیں تھی، یہ اس نظامِ سوچ کی شکست تھی جو غربت کو نااہلی سمجھتا ہے اور اس یقین کی فتح تھی جو محنت کو قسمت سے بڑا مانتا ہے۔ آکسفورڈ پہنچ کر بھی اس کا سفر ختم نہیں ہوا، بلکہ اصل امتحان تو اب شروع ہوا۔ وہ بائیولاجیکل کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کر رہا ہے، جہاں محض کتابیں نہیں بلکہ انسانیت کا مستقبل زیرِ بحث ہے۔

آج جابر علی آکسفورڈ یونیورسٹی کی لیبارٹری میں بطور محقق اور سائنسدان کام کر رہا ہے۔ جدید سائنسی آلات کے ذریعے وہ ان خطرناک بیماریوں پر تحقیق کر رہا ہے جن کے جراثیم اینٹی بائیوٹکس کے اثر کو ختم کر دیتے ہیں۔ یہ وہ میدان ہے جہاں ایک دریافت ہزاروں، لاکھوں جانیں بچا سکتی ہے۔ اس کا کام صرف سائنسی کامیابی نہیں، ایک اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ وہ اس علم کو محض ذاتی شہرت یا ترقی کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہتا، بلکہ انسانیت کے درد کا مداوا بنانا چاہتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس کی کامیابی دل کو چھوتی ہے، کیونکہ اس کے پیچھے ایک ایسا انسان ہے جس نے تکلیف کو محسوس کیا ہے، محرومی کو جیا ہے اور اسی لیے دوسروں کے درد کو سمجھتا ہے۔

جابر علی کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ بڑے خواب دیکھنے کے لیے بڑے وسائل شرط نہیں ہوتے، بڑے خواب کے لیے بڑا حوصلہ چاہیے۔ یہ کہانی ہر اُس بچے کے لیے پیغام ہے جو کسی گاؤں، کسی کچے گھر، کسی تنگ گلی میں بیٹھ کر خود کو کمزور سمجھتا ہے۔ یہ ہر اُس ماں کے لیے امید ہے جو اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دینا چاہتی ہے مگر وسائل کی کمی سے خوف زدہ ہے۔ یہ ہر اُس نوجوان کے لیے رہنمائی ہے جو چند ناکامیوں کے بعد ہمت ہارنے کا سوچتا ہے۔ کُنڈل کھوکھراں سے آکسفورڈ تک کا یہ سفر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ راستے مشکل ہوں تو بھی منزل ممکن ہوتی ہے، شرط یہ ہے کہ یقین زندہ رہے۔ جابر علی آج صرف ایک نام نہیں، ایک مثال ہے، ایک پیغام ہے اور ایک دعا ہے کہ اگر نیت سچی ہو تو ننگے پاؤں چلنے والا بھی تاریخ رقم کر سکتا ہے۔

Check Also

Ummat e Muslima Ko Darpesh Fitne

By Muhammad Umar Shahzad