Kohistan e Namak Ke Uss Par
کوہستانِ نمک کے اُس پار

پنجاب کی زمین زرخیز ہے، یہاں کے میدان لہلاتے ہیں، نہریں گنگناتی ہیں، فصلیں گاتی ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے دل بھی کھلے ہیں اور امیدیں بھی بڑی وسیع۔ مگر ان دنوں پنجاب کے منظرنامے پر اگر کوئی خطہ سوالیہ نشان بن کر ابھرا ہے، تو وہ "کوہستانِ نمک کے اُس پار" دریائے سندھ کے کنارے اور دریائے سواں کے آس پاس کا علاقہ ہے۔
پچھلے ایک سال کے دوران سرکاری اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں کوئی اسی (80) بڑے منصوبے شروع کیے گئے، جن میں سے پچاس مکمل ہو چکے ہیں۔ اگرچہ سرکاری اعداد و شمار اکثر شماریاتی شعبدہ بازی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے، پھر بھی ہم مان لیتے ہیں کہ ترقی ہو رہی ہے، کام ہو رہے ہیں، خواب تعبیر پا رہے ہیں۔ جو کچھ کبھی صرف یورپ کی سڑکوں پر دیکھا یا دبئی کی روشنیوں میں محسوس کیا، وہ لاہور اور گوجرانوالہ کی سڑکوں پر نظر آ رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب بڑی تندہی سے کام کر رہی ہیں، دن رات کی مصروفیات میں منصوبے دیکھتی ہیں، جلسے کرتی ہیں، فیتے کاٹتی ہیں، سنگِ بنیاد رکھتی ہیں اور یوں ایک منظرنامہ تشکیل پا رہا ہے جو بظاہر خوشنما ہے اور ہونا بھی چاہیے۔
مگر جو سوال جنم لیتا ہے، وہ یہ ہے کہ کیا یہ ترقی پورے پنجاب کی ہے؟ یا صرف اس پنجاب کی جسے ہم "لاہور تک کا پنجاب" کہتے ہیں؟ لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، فیصل آباد، گجرات، اوکاڑہ، ساہیوال، پاکپتن، ملتان اور سرگودھا۔ اِن شہروں میں ترقی کی وہ روشنیاں چمک رہی ہیں جو میڈیا پر دکھائی جاتی ہیں۔ سڑکیں، انڈرپاسز، اسپتال، تعلیمی ادارے اور انفراسٹرکچر۔ سب کچھ ہو رہا ہے اور باقاعدگی سے ہو رہا ہے اور مجھے اس کی دلی خوشی ہے کہ وہ ہمارا پنجاب اور ہمارا پیارا پاکستان ہے۔
لیکن اگر آپ کوہستانِ نمک سے گزر کر تلہ گنگ، چکوال، جہلم، بھکر، لیہ، میانوالی اور اٹک کی طرف رخ کریں، تو یہ ترقی جیسے کسی اور سیارے کی بات معلوم ہوتی ہے۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئی، اسپتال ویران، اسکول اجاڑ، نوجوان بے روزگار اور عوامی نمائندے بے اثر۔ یہاں کے لوگ دن رات ایک کرکے بھی اپنے حلقوں کے لیے وہ توجہ حاصل نہیں کر پاتے جو لاہور کی ایک مضافاتی یونین کونسل کا بنیادی حق بن چکی ہے۔
خاص طور پر اٹک اور تلہ گنگ تو شاید نقشے میں بھی وزیر اعلیٰ کے علم میں نہ ہوں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں نہ کوئی حکومتی وفد پہنچتا ہے، نہ کوئی مشیر، نہ کوئی مشن۔ یہ وہ خطے ہیں جو دہائیوں سے مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیتے آئے ہیں، ہر الیکشن میں ان کی محبت ایک سی رہی، ان کا یقین متزلزل نہیں ہوا، ان کی وفاداری پر کبھی آنچ نہیں آئی۔ مگر بدقسمتی سے شاید یہی ان کی سب سے بڑی سزا بن چکی ہے۔ وہ یہ سمجھ لیے گئے ہیں کہ یہ تو پکے ووٹر ہیں، انہیں راضی کرنے، سننے یا دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ان کے حلقوں میں ترقیاتی بجٹ بھی ناپید ہے، افسر شاہی کی توجہ بھی صفر ہے اور سیاسی قیادت کی دل چسپی بھی ندارد۔
یہ صورتِ حال اس لحاظ سے اور بھی تشویش ناک ہے کہ اگر کسی علاقے نے آپ کو بار بار عزت دی ہے، آپ پر اعتماد کیا ہے، تو اخلاقی طور پر آپ کا فرض ہے کہ آپ اُن کے حق میں کچھ زیادہ ہی کریں۔ مگر یہاں تو معاملہ الٹ ہے۔ جن علاقوں نے حکومت کے خلاف ووٹ دیے، اُنہیں خوش کرنے کے لیے پل، اسپتال اور سڑکوں کا جال بچھایا گیا ہے اور جنہوں نے ہر بار دل و جان سے ساتھ دیا، اُنہیں بھول کر یوں نظرانداز کیا گیا جیسے وہ کسی اور ملک کے حصے ہوں۔
یہ کالم کوئی سیاسی تنقید نہیں، بلکہ ایک دردمند آواز ہے جو اُن لوگوں کی طرف سے اُٹھ رہی ہے جو برسوں سے انتظار کی صعوبتوں میں مبتلا ہیں۔ جو دیکھتے ہیں کہ لاہور کے ایک تھانے کو ماڈل بنانے کے لیے تین کروڑ روپے دیے جا رہے ہیں، مگر اُن کے گاؤں کے بنیادی ہیلتھ یونٹ میں دوا کا ایک پتہ تک نہیں ملتا۔ جو سنتے ہیں کہ سیالکوٹ ائیرپورٹ کو آپ گریڈ کیا جا رہا ہے، مگر اُن کے علاقے میں اب بھی ایمبولینس وقت پر نہیں آتی۔
اور جب ترقی کا یہ امتیازی برتاؤ عروج پر ہو، تو اس پر ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ سمندر پار پاکستانیوں کے بچوں کے میڈیکل کالجوں میں مختص کوٹے میں بھی بے انصافی کر دی گئی۔ ایک ایسا کوٹہ جو طویل عرصے سے ان محنت کش پاکستانیوں کی اولاد کے لیے ایک امید کا مینار تھا، جو بیرون ملک کام کرتے ہیں، پسینے کی کمائی وطن بھیجتے ہیں اور اپنے وطن سے رشتہ ہر حال میں قائم رکھتے ہیں۔ اُن کے لیے میڈیکل داخلے کا یہ دروازہ یکایک بند کر دیا گیا۔
یہ کوٹہ، جو کبھی تمام سمندر پار پاکستانیوں کے لیے تھا، اب صرف اُن بچوں تک محدود کر دیا گیا ہے جو بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یعنی اگر ایک پاکستانی بیرون ملک مقیم ہو اور اُس کا بچہ پاکستان میں پڑھ رہا ہو، تو وہ اس سہولت سے محروم ہو چکا ہے۔ یہ پالیسی نہ صرف غیرمنصفانہ ہے بلکہ سراسر بددیانتی پر مبنی ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ باقی تمام صوبوں نے اس حکم کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا، مگر پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جہاں یہ پالیسی باقاعدہ لاگو کی گئی۔
یہ فیصلہ صرف ایک تعلیمی مسئلہ نہیں، یہ اُس جذباتی رشتے پر کاری ضرب ہے جو بیرون ملک بسنے والے پاکستانی اپنے وطن سے رکھتے ہیں۔ اگر ریاست اُن کے بچوں کے ساتھ اس قدر بیگانگی برتے گی، تو کل کو وہی بچے اپنی شناخت کے رشتے سے انکار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں، پرزور مطالبہ، کہ اس کوٹے کو نہ صرف پنجاب میں فوری طور پر بحال کیا جائے بلکہ وفاقی سطح پر ایک مربوط اور منصفانہ پالیسی کے تحت تمام سمندر پار پاکستانیوں کے بچوں کے لیے مساوی مواقع فراہم کیے جائیں۔ یہ اُن لوگوں کا بنیادی حق ہے جو کبھی نہ وطن سے روٹھے، نہ اپنی شناخت سے شرمائے، نہ اپنے تعلق سے انکاری ہوئے۔
آخر میں میں ایک بار پھر محترم میاں محمد نواز شریف صاحب سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو خصوصی ہدایت دیں کہ وہ تلہ گنگ اور اٹک کے مسائل کو ذاتی دلچسپی کے ساتھ دیکھیں۔ یہاں کے عوام کے ترقیاتی حقوق کو تسلیم کریں، اُن کے حصے کی روشنی، پانی، تعلیم، صحت اور مواصلات کو ترجیح دیں۔ یہ علاقے کسی طور پر بھی دوسرے شہروں سے کم نہیں، یہ بھی پنجاب ہیں، یہ بھی پاکستان ہیں اور یہاں بھی انسان بستے ہیں۔
کوہستانِ نمک کے اُس پار بسنے والے لوگ شاید زیادہ بولتے نہیں، مگر اُن کی خاموشی گواہی دیتی ہے کہ وہ بھی خواب دیکھتے ہیں۔ اُن کے خواب بھی تعبیر کے مستحق ہیں اور اُن کے ووٹ بھی کچھ قیمت رکھتے ہیں۔

