Juma Ki Pukar, Aik Qurani Jhalak
جمعہ کی پکار، ایک قرآنی جھلک

آسمان اور زمین کا ذرہ ذرہ تسبیح میں مصروف ہے۔ پہاڑ اپنی خاموشی میں، دریا اپنی روانی میں، بادل اپنی گرج میں اور پرندے اپنی پرواز میں اس کی حمد گاتے ہیں اور پھر انسان ہے، جسے اللہ نے وہ علم عطا کیا جو نہ زمین میں تھا نہ آسمانوں میں۔ اُسے کائنات کی وسعتوں میں تفکر کا ذوق دیا، قلب میں ادراک کی روشنی رکھی اور اس کے سامنے اپنا کلام رکھا۔ ایسا کلام جو سننے والوں کو جھنجھوڑ دے، پڑھنے والوں کو بدل دے اور عمل کرنے والوں کو نجات دے دے۔ سورۃ الجمعہ اسی کلامِ ربانی کا ایک جلالی مظہر ہے، جو نہ صرف نبی کریم ﷺ کے منصب کو روشنی میں لاتی ہے بلکہ اُمت کو اس کے آئینے میں اپنا چہرہ بھی دکھاتی ہے۔
سورۃ الجمعہ کی ابتدا ہی ایسی ہے کہ جیسے ایک روح کو جھنجھوڑ دینے والا نغمہ ہو: "تسبیح کرتی ہے اللہ کی وہ سب چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ وہی بادشاہ ہے، وہی پاک ہے، وہی غالب ہے، وہی حکمت والا ہے"۔ اس ایک آیت میں اللہ کی عظمت کے اتنے رنگ جھلکتے ہیں کہ انسان کا دل سجدے میں گرنے کو بےتاب ہو جاتا ہے۔ انسان جس فانی دنیا میں مبتلا ہے، اس کے دھوکے اسے خودساختہ مرکزِ کائنات بنا دیتے ہیں، مگر یہ آیت اُسے یاد دلاتی ہے کہ وہ صرف ایک بندہ ہے اور اللہ ہی ہر چیز کا مرکز و محور ہے۔
اسی آسمانی آواز کے بعد نبی کریم ﷺ کے عظیم منصب کا ذکر آتا ہے، جو ان پڑھ قوم میں سے چُنا گیا، تاکہ اللہ کی آیات تلاوت کرے، انہیں پاک کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔ غور کیجیے، یہاں سب سے پہلے ذکر تلاوت کا ہے یعنی قرآن کو سنانا۔ پھر ذکر ہے تزکیہ کا یعنی دلوں کی صفائی اور پھر آتی ہے تعلیم یعنی فہم و حکمت کی باتیں۔ گویا قرآن صرف پڑھنے کی چیز نہیں، بلکہ دل میں اترنے والی، کردار میں ڈھلنے والی اور معاشرے کو بدلنے والی روشنی ہے۔ حضور ﷺ کا معجزہ صرف الفاظ نہیں تھے، وہ ایک زندہ چلتا پھرتا قرآن تھے، جن کی زندگی میں اللہ کی وحی کی روشنی بولتی تھی، چلتی تھی، مسکراتی تھی اور جہاد کرتی تھی۔
پھر قرآن بنی اسرائیل کی مثال بیان کرتا ہے۔ وہ قوم جسے اللہ نے کتاب دی، مگر انہوں نے اس پر عمل نہ کیا۔ فرمایا، ان کی مثال گدھے کی سی ہے جو کتابوں کا بوجھ تو اٹھاتا ہے مگر ان سے کوئی فائدہ نہیں لیتا۔ یہ نہایت سخت مثال ہے۔ مگر یہ صرف بنی اسرائیل کے لیے نہیں، یہ ہر اس قوم کے لیے ہے جو کتابِ الٰہی کی وارث ہو، مگر اس پر عمل نہ کرے۔ آج ہم مسلمان ہیں، قرآن ہماری کتاب ہے، ہر گھر میں موجود ہے، موبائل پر ایپ کی صورت میں ساتھ ہے، مگر کیا وہ ہمارے کردار میں ہے؟ کیا ہم نے اسے زندگی کے فیصلوں میں شامل کیا ہے؟ اگر نہیں، تو ہم بھی اسی "مثال" کے مخاطب ہیں۔ ہم وہ گدھے نہ بنیں جو علم کا بوجھ اٹھائیں، مگر اس سے روشنی حاصل نہ کریں۔ ہمیں اس کتاب کا بوجھ بردار نہیں، بلکہ اس کے نُور کا حامل بننا ہے۔
اللہ نے پھر یہودیوں کو خطاب کرتے ہوئے ایک عجیب بات کہی: "اگر تم اللہ کے دوست ہو اور تمہیں گمان ہے کہ آخرت تمہارے لیے ہی مخصوص ہے تو موت کی تمنّا کرو"۔ لیکن وہ کبھی موت کی تمنّا نہیں کریں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے اعمال کیا ہیں۔ یہ آیت گویا ہم سب کے سامنے ایک کسوٹی رکھتی ہے۔ کیا ہم بھی موت سے ڈرتے ہیں؟ کیا ہم بھی آخرت کے ذکر پر بے چین ہو جاتے ہیں؟ جو شخص اللہ سے واقعی جُڑا ہو، اسے موت محبوب لگتی ہے، کیونکہ وہ اپنے محبوب سے ملنے کا وقت جانتا ہے۔ مگر جو دنیا میں الجھ گیا ہو، وہ موت سے ڈرتا ہے۔ آج ہم مسلمان کیا موت کی بات سن کر خوش ہوتے ہیں؟ یا ہم بھی دنیا سے ایسے چمٹے ہوئے ہیں جیسے اس کے بعد کچھ بھی نہیں؟ یہ آیت خاموشی سے ہماری حقیقت کو عیاں کرتی ہے۔
پھر اللہ نے جمعے کی اذان کا ذکر کیا اور یہ قرآن کا وہ لمحہ ہے جہاں عبادت اور معاش کا توازن بیان ہوتا ہے۔ جب اذان ہو جائے، تو فوراً اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور سوداگری چھوڑ دو۔ کیا ہی عجیب حکم ہے۔ دنیا چھوڑنے کا نہیں، مگر اللہ کے بلاوے پر ہر کام روکنے کا۔ جیسے کوئی بادشاہ اپنے غلاموں کو بلائے اور سب کچھ چھوڑ کر حاضر ہونا لازم ہو۔ جمعہ کی اذان اس بادشاہِ حقیقی کی طرف سے دعوت ہے نہ صرف مسجد آنے کی، بلکہ دل سے دنیا نکال کر خالص ہو کر حاضر ہونے کی۔ یہ وقت صرف نماز کا نہیں، بلکہ تجدیدِ بیعت کا وقت ہے۔ ہم اللہ کے بندے ہیں اور جمعہ اس تعلق کا اعادہ ہے۔
نماز کے بعد، اللہ فرماتا ہے، "زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ"۔ گویا اسلام دنیا سے کٹنے کا نام نہیں، بلکہ اس دنیا میں بندگی کے ساتھ جینے کا نام ہے۔ مسلمان کاروبار بھی کرتا ہے، تجارت بھی، سفر بھی، لیکن اللہ کو یاد رکھتے ہوئے اور اللہ کی حدود کے اندر۔ وہ دنیا کو پاتا ہے، مگر اپنے ہاتھوں میں، دل میں نہیں اور یہی اصل آزادی ہے۔ دنیا کے اندر ہو کر بھی اللہ کے ساتھ جینا۔
اور پھر وہ آیت آتی ہے جو شرمندگی سے بھر دیتی ہے: "اور جب وہ ایک تجارت یا کھیل تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور آپ ﷺ کو کھڑا چھوڑ دیتے ہیں"۔ یہ مدینہ میں پیش آیا، جب خطبہ جمعہ کے دوران ایک قافلہ آیا اور کچھ لوگ خطبہ چھوڑ کر بھاگے۔ رسول اللہ ﷺ کو منبر پر چھوڑ کر۔ یہ صرف اُن کی لغزش نہیں، یہ ہماری بھی حقیقت ہے۔ ہم بھی نبی ﷺ کی سنت، ان کی تعلیم اور ان کی صحبت کو چھوڑ کر دنیا کے کھیل تماشوں میں الجھ جاتے ہیں۔ آج بھی ہماری جمعہ کی نمازیں دکانوں کے چکر میں قید ہیں، ہمارے دل خطبے کے بجائے سیل کے اشتہاروں میں لگے ہیں اور ہم نبی ﷺ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف دوڑتے ہیں۔ کیا یہ آیت ہمیں آئینہ نہیں دکھاتی؟
سورۃ الجمعہ اصل میں ہمارے ایمان کا آئینہ ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ صرف کتاب کافی نہیں، صرف نام کافی نہیں۔ اصل چیز ہے عمل، تزکیہ، شعور اور اللہ کی یاد۔ جمعہ کا دن صرف نماز کا دن نہیں، بلکہ پورے ہفتے کی روحانی تجدید کا دن ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہم اللہ کو کہتے ہیں: ہاں، ہم تیرے بندے ہیں، ہم نے دنیا کو روک دیا، اب تیرے سامنے ہیں۔
اے اللہ! ہمیں جمعے کی اس پکار پر لبیک کہنے والوں میں شامل فرما۔ ہمارے دلوں کو پاک کر، ہمیں قرآن کے نور سے جینے والا بنا اور جب ہمیں موت آئے، تو یوں کہ جیسے کوئی اپنے رب سے ملنے جا رہا ہو۔

