Tuesday, 23 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Jaisa Karwan, Waisa Mir e Karwan

Jaisa Karwan, Waisa Mir e Karwan

جیسا کارواں، ویسا میرِ کارواں

کراچی صدر کے ایک گنجان بازار میں ایک پرانا ہوٹل ہے۔ جہاں کبھی پورے شہر کا دل دھڑکتا تھا۔ یہاں ایک عمر رسیدہ ویٹر کام کرتا تھا۔ لوگ اسے کریم چاچا کہتے تھے۔ میں ایک دن وہاں چائے پینے رکا تو وہ میرے سامنے یوں بیٹھ گیا جیسے برسوں کا بوجھ اتارنا چاہتا ہو۔ اس نے آہ بھری اور بولا، "بیٹا! کبھی غور کیا ہے کہ یہاں سب کچھ الٹا کیوں چل رہا ہے؟" میں نے کندھے اُچکائے، جیسے کہنا چاہ رہا ہوں کہ یہ تو سبھی جانتے ہیں۔ وہ ہنس پڑا، پھر بولا، "میرے باپ نے مجھے بچپن میں ایک بات سکھائی تھی کہ کارواں کا حال اگر خراب ہو تو میرِ کارواں کو برا مت کہو، کیونکہ میرِ کارواں انہی میں سے اٹھتا ہے۔ جیسا کارواں ہوگا، ویسا ہی اس کا میرِ کارواں"۔

یہاں رکا، پھر بولا: "بیٹا! لوگ جس طرح ہوتے ہیں، ان کے لیڈر بھی ویسے ہی ہوتے ہیں۔ اگر قوم وقت کی پابند نہیں تو اس کی قیادت بھی وقت ضائع کرے گی۔ اگر لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر دھوکہ دیتے ہیں تو بڑے بڑے کرسیوں پر بیٹھے لوگ بھی دھوکہ دیں گے۔ اگر بازار میں ناپ تول کم ملتا ہے، اگر ملاوٹ عام ہے، اگر جھوٹ آسان اور سچ مشکل ہے تو اوپر بیٹھا شخص کیا آسمان سے نازل ہوا ہے؟ وہ بھی تو انہی گلیوں سے گزرا ہے، انہی اسکولوں میں پڑھا ہے، انہی ریڑھی والوں سے سودا خریدا ہے۔ اس نے اپنے اردگرد جو دیکھا، وہی سیکھا۔ جو ماحول ملا، اسی کا رنگ چڑھا"۔ میں سن تو رہا تھا مگر دل میں چبھن سی ہو رہی تھی۔ کریم چاچا سادہ آدمی تھا لیکن بات پہاڑ جیسی کہہ گیا۔

اسی رات میں گھر لوٹا تو بار بار یہی جملہ ذہن میں گھومتا رہا: "جیسا کارواں، ویسا میرِ کارواں"۔ ہم لوگ جن لیڈروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، وہ ہماری ہی گلیوں، ہمارے ہی گھروں، ہمارے ہی محلوں سے نکلے ہوتے ہیں۔ جب ایک نوجوان دس روپے لینے کے لیے اپنی عمر چھپا دے، جب ایک وال چاکر کلرک کو رشوت دے کر نقشہ پاس کروا لے، جب ایک استاد فیس بڑھانے کے لیے بچوں کو خوف دلائے، جب ایک شہری اپنی گاڑی فٹ پاتھ پر کھڑی کرکے چلتا بنے تو پھر حیرانی کیسی کہ کل طاقتور کرسی پر بیٹھنے والا شخص بھی اصول توڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے؟ وہ بھی تو اسی کارواں کا فرد ہے، انہی اصول شکنیوں کا نتیجہ ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ قیادت خلا میں پیدا نہیں ہوتی، مٹی میں اگتی ہے اور مٹی اگر خراب ہو تو فصل بھی اچھی نہیں ہو سکتی۔

پاکستان کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ہم پچھتر برسوں سے میرِ کارواں بدلتے رہے، کبھی اسے برا کہا، کبھی اسے نجات دہندہ سمجھا، کبھی اس کے پیچھے دیوانوں کی طرح بھاگے اور کبھی اسی سے نفرت کرنے لگے۔ لیکن کسی نے پلٹ کر یہ نہیں دیکھا کہ کارواں خود کیسا ہے۔ پنچائت کے فیصلے سے لے کر قومی اسمبلی کی کارروائی تک، ریڑھی کے جھگڑے سے لے کر عدالت کے کٹہرے تک۔ ہم نے ایک دوسرے کو بس مات دینے کی کوشش کی، جیتنے کی، دبانے کی، آگے نکلنے کی، چاہے حق مار کر ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ کارواں کا مزاج ہی جب مقابلے کی ایسی منفی آگ سے بھرا ہو، تو پھر ہم کیوں چاہتے ہیں کہ میرِ کارواں فرشتہ بن کر اترے؟

میں کئی بار مختلف شہروں میں مزدوروں، ملازمین، ٹیکسی ڈرائیوروں، دکانداروں، استادوں، افسروں، ڈاکٹرز اور سیاست دانوں سے ملا ہوں۔ سب کی زبان پر ایک ہی شکایت ہوتی ہے، "ملک ٹھیک نہیں ہو رہا، لیڈر صحیح نہیں ملتا"۔ مگر جب ان سے پوچھیں، "آپ نے اپنا حصہ ٹھیک ادا کیا؟ اپنی ذمہ داری سچائی سے نبھائی؟ اپنی ڈیوٹی، اپنا وعدہ، اپنا کردار، سب درست ہیں؟" تو وہاں خاموشی چھا جاتی ہے۔ جیسے کسی نے روشنی اچانک آن کر دی ہو اور ہر کوئی اپنی ہی تصویر دیکھ کر چونک گیا ہو۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ رہنماؤں کی خرابی ہماری اجتماعی خرابی کا عکس ہے۔ ہم بہتر قوم بن جائیں تو قیادت بھی سنور جائے۔ یہ سچ ہم ماننے سے ڈرتے ہیں۔

اور یہی اصل المیہ ہے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ میرِ کارواں بہترین ہو، دیانت دار ہو، مضبوط ہو، اصولوں کا پابند ہو، انصاف کرے، خود غرض نہ ہو لیکن اپنے حصے کا چراغ جلانے سے گریز کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے مگر ٹریفک سگنل پر کھڑے ہونے میں ہمیں مصیبت نظر آتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کرپشن ختم ہو مگر ایک چھوٹے فائدے کے لیے "کوئی بات نہیں، چلنے دو" کہہ کر خود ہی کرپشن کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے بااخلاق ہوں مگر ہم خود اخلاق کی چھوٹی چھوٹی خلاف ورزیوں کو معمولی سمجھ کر گزرتے جاتے ہیں۔ کارواں جب تک خود اپنے آپ کو درست نہ کرے، میرِ کارواں خواہ کتنی مرتبہ بدل جائے، سفر کہیں نہیں بدلتا۔

کریم چاچا نے جاتے ہوئے مجھ سے آخری بات کہی تھی۔ بولا، "بیٹا قومیں اپنے لیڈروں سے نہیں بنتیں، بلکہ لیڈر اپنی قوموں سے بنتے ہیں۔ اکثریت کا رویہ ہی قیادت کا مزاج بناتا ہے۔ اگر کارواں اپنی سمت درست کر لے تو میرِ کارواں خود بخود سیدھا ہو جاتا ہے۔ اگر سب راہ گیر روشنی میں چلنے لگیں تو اندھیرا جتنا بھی گہرا ہو، دیر تک نہیں رہ سکتا"۔ میں نے اس دن پہلی بار سوچا کہ شاید مسئلہ قیادت کا نہیں، تربیت کا ہے، شاید مسئلہ حکومت کا نہیں، عادتوں کا ہے، شاید ہمارا اصل دشمن کوئی فرد نہیں، بلکہ پوری قوم کا اجتماعی رویہ ہے۔

ہم سب اگر روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے جھوٹ چھوڑ دیں، اپنی ذمہ داریاں دیانت داری سے نبھانا شروع کر دیں، قطار میں کھڑے ہونے کو عزت سمجھیں، راستہ دینے کو اخلاق سمجھیں، وعدہ پورا کرنے کو ایمان کا حصہ جانیں۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا میرِ کارواں بھی ویسا نہ بنے۔ کیونکہ وہ بھی تو ہمیں میں سے اٹھے گا۔ جب ہم بدل جائیں گے تو قیادت بھی بدل جائے گی اور پھر شاید مستقبل کے کسی کریم چاچا اپنے ہوٹل میں بیٹھ کر یہ نہ کہنا پڑے کہ ہمارا کارواں خراب ہے اس لیے میرِ کارواں بھی ایسا ہے۔ وہ تب کہے گا، "یہ کارواں روشن ہے، اس لیے اس کا میر بھی روشنی سے بنا ہے"۔

سفر وہی ہے، راستہ وہی ہے۔ لیکن اپنے اپنے حصے کا چراغ جلانے کی دیر ہے۔ پھر دیکھئے گا، کارواں بھی بدلے گا اور میرِ کارواں بھی۔

Check Also

Qaumi Ittehad Pakistan Ki Baqa Aur Taraqi Ka Wahid Hal Hai

By Shair Khan