Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Hashalla Ma Haza Bashar

Hashalla Ma Haza Bashar

حاشَ للہ ما ھٰذا بشر

"یہ انسان نہیں یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے"۔

کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جو صرف آنکھوں کو خوشی نہیں دیتے، دل کو سکون بخشتے ہیں اور کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو صرف تاریخ کا حصہ نہیں بنتے، زمانے کے لیے آئینہ بن جاتے ہیں۔ حضرت یوسفؑ انہی چہروں اور کرداروں میں سے ہیں، جنہیں دیکھ کر حسن کے معنی بدل جاتے ہیں، جن کی سوانح پڑھ کر صبر کا مفہوم نکھر آتا ہے اور جن کی زندگی پر غور کرکے انسان رب سے قرب کا راز پا لیتا ہے۔

یقیناً، حضرت یوسفؑ کی زندگی ایک ایسی سچی، خوبصورت اور عمیق داستان ہے جس میں ایمان، صبر، عزت، قربانی، علم اور حسن کا وہ امتزاج ملتا ہے جو صرف انبیائے کرام کے ہاں ہی ممکن ہے۔

یوسفؑ کا ذکر جب قرآن کرتا ہے، تو اسے "احسن القصص" یعنی بہترین قصہ قرار دیتا ہے اور کیوں نہ ہو؟ یہ وہ قصہ ہے جو جذبات کی ہر پرت کو چھوتا ہے۔ حسد، سازش، جلاوطنی، غلامی، آزمائش، فتنہ، قید، علم، دانائی، اقتدار، معافی اور بالآخر، وہ بلند مرتبہ جہاں انسان صرف اللہ کے قریب ہو جاتا ہے۔

یوسفؑ کا حسن صرف جسمانی نہ تھا، بلکہ وہ حسن روحانی اور باطنی نور کا بھی حامل تھا۔ انہیں دیکھ کر عورتوں نے چھریوں سے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے اور بے اختیار پکار اٹھیں: "ما ہٰذا بشرًا، ان ہٰذا الا ملک کریم"۔ (یہ تو کوئی انسان نہیں، بلکہ بہت ہی معزز فرشتہ معلوم ہوتا ہے)

یوسف کا حسن وہ نہ تھا جس پر انسان مغرور ہو جائے، وہ تو عاجزی کا لباس پہن کر، حسن کے تاج کو سر جھکا کر لیے پھرتے تھے۔ ان کے حسن پر دنیا فریفتہ ہوئی، مگر وہ خود رب کی رضا پر فریفتہ تھے۔

جن بھائیوں کو اپنے خوابوں کی تابانیاں ناگوار گزریں، انہوں نے حسد کے مارے یوسف کو کنویں میں پھینک دیا۔ قافلے والوں نے انہیں غلام سمجھ کر نکالا اور مصر کے بازار میں بیچ ڈالا۔ قرآن کہتا ہے: "و شروہ بثمن بخس دراہم معدودۃ، و کانوا فیہ من الزاہدین"۔

"یعنی انہوں نے یوسف کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ دیا اور وہ اس کے بارے میں بے رغبت تھے"۔

یہ دنیا کا قاعدہ ہے، جو چیز محنت کے بغیر مل جائے، وہ چاہے سونا ہو یا ہیرے، دل کو بھاتی نہیں۔ یوسف جنہیں اللہ نے اپنا نبی بنایا، انسانوں نے انہیں سستا غلام سمجھ کر بیچ دیا۔ مگر اللہ کی حکمت دیکھیں، وہی غلام مصر کے ایوانوں کا سلطان اور قوم کا نجات دہندہ بننے جا رہا تھا۔

حضرت یوسفٌ کو اللہ نے غلامی میں بھی عزت دی اور جوانی میں بھی عصمت عطا کی۔ ان کے حسن کے ساتھ ساتھ، ان کی فہم و فراست، دانائی اور قوتِ فیصلہ ایسی تھی کہ عزیزِ مصر نے انہیں اپنے گھر میں اس امید پر رکھا کہ یہ نفع مند ہوگا۔ مگر وہ جانتا نہ تھا کہ جسے وہ غلام سمجھ رہا ہے، وہ تو دراصل دنیا کی قیادت کے لیے چنا گیا ایک نبی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "ولما بلغ أشده آتيناه حكما و علما، وكذلك نجزي المحسنين"۔

(اور جب وہ اپنی پختگی کو پہنچا، ہم نے اسے دانائی اور علم عطا کیا اور ہم نیکوکاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔)

یہی یوسف تھے جو ہر آزمائش میں ثابت قدم رہے۔ نہ کنویں سے گھبرائے، نہ غلامی سے بکھرے، نہ فتنے سے کمزور پڑے، نہ قید سے دل شکستہ ہوئے۔ ان کا ایمان پہاڑ کی مانند تھا اور ان کا کردار چمکتے چاند جیسا۔

عزیز مصر کی بیوی، زلیخا، یوسف کے حسن پر اس قدر فریفتہ ہوئی کہ وہ اپنی حیثیت، عزت اور شوہر کی عزت کو روندنے پر آمادہ ہوگئی۔ وہ جس گھر میں مہمان تھے، وہی گھر ان کے لیے قید خانہ بننے والا تھا۔ مگر یوسف۔

انہوں نے کہا: "معاذ اللہ! انہ ربی احسن مثوای، انہ لا یفلح الظالمون"۔

(اللہ کی پناہ! بے شک میرے رب نے مجھے عزت بخشی ہے اور ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔)

یوسف کا رد عمل صرف ایک انکار نہ تھا، وہ ایک پوری نسل کے لیے کردار کی تعلیم تھا۔ انہوں نے گناہ کی دعوت کو وہیں دفن کر دیا جہاں آج کے اکثر انسان عزت اور ایمان دفن کر دیتے ہیں۔

گناہ نہ کرنے کے باوجود جیل جانا ایک تکلیف دہ بات ہے۔ مگر یوسف کے لیے جیل بھی ایک تربیت گاہ تھی۔ وہاں انہوں نے قیدیوں کو توحید سکھائی، خوابوں کی تعبیر دی اور وہی سے بادشاہ تک رسائی حاصل کی۔

وہ بادشاہ، جو خود الجھن میں تھا، اس نے جب یوسف کا علم دیکھا، تو کہا: "اُتونی بہ، استخلصہ لنفسی" (اسے میرے پاس لاؤ، میں اسے اپنے خاص مشیر کے طور پر رکھوں گا۔)

یہ وہ لمحہ تھا جہاں ایک غلام، ایک قیدی، بادشاہوں کا استاد بننے والا تھا۔

یوسف کو اقتدار ملا، تو انہوں نے ظلم کا بدلہ نہیں لیا۔ انہوں نے بھائیوں کو معاف کیا، قحط زدہ مصر کو نظام دیا اور سب کو رزق فراہم کیا۔ ان کے اقتدار کا مرکز "انصاف" تھا اور بنیاد "ایمان"۔

انہوں نے کہا: "انی حفیظ علیم" (میں امانت دار اور صاحبِ علم ہوں۔)

یہ جملہ ایک حکمران کے لیے اصول ہے۔ یوسف نے اس ایک فقرے میں حکمرانی کا دستور دے دیا۔

یوسف کی زندگی کا اختتام بھی دعاؤں میں ہوا۔ انہوں نے اپنے رب سے فریاد کی: "رب قد آتیتنی من الملک و علمتنی من تأویل الاحادیث، فاطر السموات و الارض، انت ولی فی الدنیا و الآخرۃ، توفنی مسلما و ألحقنی بالصالحین"۔

(اے میرے رب! تو نے مجھے حکومت عطا کی، خوابوں کی تعبیر سکھائی، آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے! تو ہی دنیا و آخرت میں میرا کارساز ہے، مجھے اسلام پر وفات دے اور مجھے نیکوکاروں کے ساتھ شامل فرما۔)

یوسف، صرف ایک نبی نہیں، ایک مکمل درسگاہ

یوسفؑ ہمیں سکھاتے ہیں کہ:

حسن ہو، تو حیا کے ساتھ ہو۔

اقتدار ہو، تو عدل کے ساتھ ہو۔

آزمائش ہو، تو صبر کے ساتھ ہو۔

علم ہو، تو نفع کے ساتھ ہو۔

دشمنی ہو، تو معافی کے ساتھ ہو۔

اور زندگی ہو، تو اللہ کے لیے ہو۔

یوسف کی داستان صرف ایک نبی کی کہانی نہیں، یہ ہر اس انسان کی رہنمائی ہے جو دنیا کی چکا چوند میں رب کی روشنی ڈھونڈ رہا ہو۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam