Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Europe Aur America Ka Munafqana Khel

Europe Aur America Ka Munafqana Khel

یورپ و امریکہ کا منافقانہ کھیل

یورپ اور امریکہ کی خارجہ پالیسی اکثر ایسے متضاد رویوں کا مظہر ہوتی ہے جو انسانی حقوق، انصاف اور جمہوریت کے نام پر دنیا بھر میں بے چینی اور بدامنی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ جنگیں مسلط کرنے اور پھر انہی کے خلاف احتجاج کا ڈرامہ، بظاہر ایک بے گناہ عوام کی ہمدردی کا مظاہرہ لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک پیچیدہ اور منافقانہ کھیل کا حصہ ہے۔

یورپ اور امریکہ نے تاریخ میں بارہا ایسے اقدامات کیے ہیں جو ان کے اپنے اصولوں سے متصادم ہیں۔ مشرق وسطیٰ، افغانستان اور افریقی ممالک میں جنگیں شروع کرنے کے لیے جواز تراشے گئے، دہشت گردی کے خاتمے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے دعوے کیے گئے، لیکن ان مداخلتوں کا نتیجہ تباہی، بدامنی اور عوامی مشکلات کی صورت میں نکلا۔ ان جنگوں کے دوران یورپ اور امریکہ کے مفادات زیادہ واضح ہو جاتے ہیں: وسائل کی لوٹ مار، جغرافیائی تسلط اور اپنی دفاعی صنعت کے لیے منافع کمانا۔

جب جنگیں جاری رہتی ہیں، تو یہی طاقتیں اپنے میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذریعے مظلوم عوام کے حق میں احتجاج اور ہمدردی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ یہ احتجاج بظاہر انصاف کی آواز لگتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ صرف اپنے عوام اور دنیا کو دکھانے کا ایک حربہ ہے کہ وہ "اخلاقی طور پر برتر" ہیں۔ یہ کھیل ان کے لیے دوہری کامیابی کا ذریعہ ہے: ایک طرف وہ اپنے اقتصادی اور سیاسی مفادات حاصل کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ دنیا کے سامنے اپنے آپ کو مظلوموں کے حامی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر، عراق پر حملے کے دوران "مہلک ہتھیاروں" کا جھوٹا جواز تراشا گیا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ لاکھوں معصوم لوگوں کی جانیں گئیں، ایک پورا ملک کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا اور آج تک وہاں امن بحال نہیں ہوسکا۔ پھر انہی ممالک نے عراق کے عوام کی حالت زار پر احتجاج کے مظاہرے کیے اور ان کی بحالی کے منصوبے پیش کیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو آگ انہوں نے خود لگائی، کیا وہ اس کے ذمہ دار نہیں؟

یہی صورت حال افغانستان اور شام میں دیکھنے کو ملی۔ امریکہ نے طالبان کے خلاف جنگ شروع کی، ایک دہائی سے زیادہ عرصہ وہاں تباہی مچائی اور پھر انہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کرکے اپنی افواج نکال لیں۔ اس دوران بے گناہ عوام کو کس نے تحفظ فراہم کیا؟ اس سوال کا جواب آج بھی امریکہ اور اس کے اتحادی دینے سے قاصر ہیں۔

یہ منافقت صرف جنگوں تک محدود نہیں رہتی، بلکہ معاشی پابندیوں اور سیاسی دباؤ کی شکل میں بھی نظر آتی ہے۔ ایران، وینزویلا اور کیوبا جیسے ممالک پر لگائی جانے والی پابندیاں عوام کی زندگیوں کو مشکل بنا دیتی ہیں، لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں انہی پابندیوں کے اثرات پر احتجاج کرتی نظر آتی ہیں، جیسے وہ ان مظالم سے بے خبر ہوں۔

ظاہر ہے، یورپ اور امریکہ کے یہ اقدامات صرف طاقت اور مفادات کے کھیل کا حصہ ہیں۔ ان کی اخلاقیات اور اصولوں کا مطلب صرف اتنا ہے جتنا ان کے اپنے مقاصد کو فائدہ پہنچائے۔ ان کے احتجاج، قراردادیں اور عالمی کانفرنسیں صرف دکھاوے کے لیے ہوتی ہیں۔

لیکن دنیا کو اب اس منافقت کو پہچاننا ہوگا۔ ممالک کو اپنی خودمختاری اور سالمیت کے تحفظ کے لیے خود کھڑا ہونا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ عوامی سطح پر اس دوغلے پن کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور اپنی آزادی کو ان طاقتوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھنے سے بچایا جائے۔

دنیا کو اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ طاقتور ممالک کا کھیل صرف وسائل اور اثر و رسوخ پر قبضہ کرنے کا ہے اور یہ منافقت اسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ایک طریقہ ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف ان طاقتوں کے اصل عزائم کو بے نقاب کیا جائے بلکہ عالمی سطح پر ان کے خلاف متحد ہو کر اپنی خودمختاری کا دفاع کیا جائے۔

یورپ اور امریکہ کے یہ دوہرے معیار عالمی سیاست میں اعتماد کے فقدان کا باعث بن رہے ہیں۔ انصاف اور امن کے نام پر کی جانے والی یہ منافقت دنیا کے مظلوم عوام کو مزید مشکلات میں دھکیل رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس کھیل کو سمجھیں اور اپنی قوموں کے حق میں خود فیصلے کریں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari