Saturday, 27 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. China Ki Raftar, 50 Hazar Kilometer Rail

China Ki Raftar, 50 Hazar Kilometer Rail

چین کی رفتار، پچاس ہزار کلومیٹر ریل

چین نے ایک بار پھر دنیا کو چونکا دیا ہے۔ جب شی آن سے یان آن تک نئی ہائی اسپیڈ ریلوے لائن کا افتتاح ہوا تو اس کے ساتھ ہی چین کا تیز رفتار ریلوے نیٹ ورک پچاس ہزار کلومیٹر سے تجاوز کر گیا۔ یہ محض ایک عدد نہیں، یہ ایک اعلان ہے کہ اکیسویں صدی کی نقل و حرکت، معیشت اور ریاستی منصوبہ بندی کا مرکز کہاں منتقل ہو چکا ہے۔ آج دنیا کے کسی بھی ملک کے پاس اتنا وسیع، مربوط اور فعال ہائی اسپیڈ ریلوے نظام نہیں جتنا چین کے پاس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چین اکیلا اتنی ہائی اسپیڈ ریل چلا رہا ہے جتنی باقی پوری دنیا مل کر بھی نہیں چلا پا رہی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انفراسٹرکچر محض سہولت نہیں رہتا بلکہ قومی طاقت اور وژن کی علامت بن جاتا ہے۔

چین کی ہائی اسپیڈ ریل اب ان شہروں کے ستانوے فیصد تک پہنچ چکی ہے جن کی آبادی پانچ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بڑے شہروں کے درمیان فاصلے محض نقشوں پر رہ گئے ہیں، عملی زندگی میں نہیں۔ پانچ سو کلومیٹر کے دائرے میں ایک سے دو گھنٹے کا سفری دائرہ بن چکا ہے، ہزار کلومیٹر کا سفر چار گھنٹوں میں اور دو ہزار کلومیٹر تک کے سفر ایسے ہو گئے ہیں کہ صبح جا کر شام کو واپس آنا ممکن ہو رہا ہے۔ یہ صرف وقت کی بچت نہیں، یہ سوچ کی تبدیلی ہے۔ جب فاصلے سمٹتے ہیں تو منڈیاں جڑتی ہیں، روزگار کے مواقع پھیلتے ہیں، تعلیمی اور ثقافتی رابطے مضبوط ہوتے ہیں اور ریاست کے مختلف حصے ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ جاتے ہیں۔

اس نیٹ ورک کی وسعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چین کی ہائی اسپیڈ ریل ایک دن میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ مسافروں کو لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یعنی ایک دن میں ایک بڑے میگا سٹی کی پوری آبادی کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جس کے لیے نہ صرف پٹریاں اور ٹرینیں چاہئیں بلکہ انتہائی منظم نظام، جدید سگنلنگ، درست وقت کی پابندی اور اعلیٰ سطح کی انتظامی اہلیت بھی درکار ہوتی ہے۔ چین نے یہ سب کچھ محض تعمیر نہیں کیا بلکہ چلایا بھی ہے اور یہی اصل کمال ہے۔

شی آن سے یان آن تک نئی ہائی اسپیڈ ریلوے لائن اس پورے وژن کی ایک جھلک ہے۔ دو سو ننانوے کلومیٹر طویل یہ لائن وی نان اور تونگ چھوان جیسے شہروں سے گزرتی ہوئی یان آن تک پہنچتی ہے اور اس کی ڈیزائن کردہ رفتار تین سو پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ ابتدائی مرحلے میں روزانہ اڑتیس جدید برقی ٹرینیں چلیں گی اور دس اسٹیشن مسافروں کے لیے کھولے جائیں گے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جو سفر پہلے دو گھنٹے سے زیادہ میں طے ہوتا تھا وہ اب محض اڑسٹھ منٹ میں مکمل ہو جائے گا۔ وقت میں باسٹھ منٹ کی کمی صرف گھڑی کے کانٹے نہیں بدلتی بلکہ زندگی کے معمولات بدل دیتی ہے۔

چودہویں پانچ سالہ منصوبے کے دوران، یعنی 2021 سے 2025 تک، چین نے بارہ ہزار کلومیٹر نئی ہائی اسپیڈ ریل تعمیر کرکے فعال کر دی۔ یوں 2020 کے مقابلے میں کل نیٹ ورک میں بتیس فیصد اضافہ ہوا اور ایک سو اٹھائیس ایسے اضلاع بھی ہائی اسپیڈ ریل سے جڑ گئے جہاں پہلے یہ سہولت موجود نہیں تھی۔ یہ توسیع محض بڑے شہروں تک محدود نہیں رہی بلکہ نسبتاً کم ترقی یافتہ علاقوں کو بھی قومی دھارے میں شامل کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے مطابق ہائی اسپیڈ ریل نے لوگوں، معلومات اور سرمایہ کے بہاؤ کو غیر معمولی حد تک تیز کر دیا ہے اور مختلف خطوں کے درمیان معاشی راہداریوں کی شکل میں نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔

چین کی برتری صرف پٹریوں اور فاصلے تک محدود نہیں، بلکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی وہ دنیا سے آگے نکل چکا ہے۔ انجینئرنگ، ساز و سامان کی تیاری اور آپریشنل مینجمنٹ، تینوں سطحوں پر ایک مکمل اور مربوط نظام تشکیل دیا جا چکا ہے۔ 2024 کے آخر میں متعارف کرایا جانے والا سی آر 450 ای ایم یو اس بات کی علامت ہے کہ چین اب مستقبل کی رفتار کی تیاری کر رہا ہے۔ اس ٹرین کے اہم اشاریے، جیسے رفتار، توانائی کی بچت، اندرونی شور کی سطح اور بریک لگانے کا فاصلہ، عالمی معیار میں سرفہرست ہیں۔ آزمائشی مراحل میں دو ٹرینوں کے درمیان آٹھ سو چھیانوے کلومیٹر فی گھنٹہ کی نسبتی رفتار کا ریکارڈ قائم ہونا اس بات کا اعلان ہے کہ چین اب چار سو کلومیٹر فی گھنٹہ کلاس کی ہائی اسپیڈ ریل کے لیے عالمی معیار خود طے کر رہا ہے۔

یہ ساری کہانی دراصل ایک سوال بھی چھوڑ جاتی ہے، خاص طور پر ہمارے جیسے ممالک کے لیے۔ کیا ترقی محض نعروں سے آتی ہے یا طویل المدت منصوبہ بندی، تسلسل اور ادارہ جاتی صلاحیت سے؟ چین نے دہائیوں پہلے فیصلہ کیا کہ نقل و حمل اس کی معاشی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی ہوگی اور پھر اس فیصلے پر قائم رہا۔ آج پچاس ہزار کلومیٹر ہائی اسپیڈ ریل محض ایک انفراسٹرکچر نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک نظم اور ایک قومی عزم کا نتیجہ ہے۔ دنیا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ریل کی یہ پٹریاں ہمیں بتا رہی ہیں کہ جو قومیں رفتار کے ساتھ سمت بھی طے کر لیں، وہی مستقبل کی قیادت کرتی ہیں۔

Check Also

Moscow Se Makka (9)

By Mojahid Mirza