China, Khatra Ya Moqa?
چین، خطرہ یا موقع؟

دنیا بدل رہی ہے اور اس تیزی سے بدلتے ہوئے منظرنامے میں ایک اصطلاح بار بار ہمارے سامنے آتی ہے، "چائنا تھریٹ تھیوری"۔ یہ نظریہ اب عالمی سیاست، معیشت، سفارت کاری اور میڈیا میں جڑیں پکڑ چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی چین کی ترقی دنیا کے لیے ایک خطرہ ہے، یا یہ ترقی عالمی برادری کے لیے ایک بڑا موقع بن سکتی ہے؟ اس ایک جملے کا اردو ترجمہ ہے: "چائنا تھریٹ تھیوری کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ کیا چین کی ترقی دنیا کے لیے خطرہ ہے یا موقع؟"
یہ سوال صرف عالمی طاقتوں کے درمیان کشمکش کا عکاس نہیں بلکہ مستقبل کے عالمی نظام کی بنیادیں بھی اسی سوال کے گرد گھوم رہی ہیں۔ آج دنیا کا ہر ملک کسی نہ کسی سطح پر چین کے اثرات کے دائرے میں ہے، چاہے وہ سرمایہ کاری ہو، ٹیکنالوجی ہو، تجارت ہو، سفارت کاری ہو یا عالمی ترقی کا نیا ماڈل۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہم جذبات سے ہٹ کر حقیقت کا جائزہ لیں کہ چین کی ترقی انسانیت کے لیے کیسا پیغام رکھتی ہے۔
چین ہزاروں سال پرانی تہذیب کا حامل ملک ہے۔ اس نے جنگوں کے بجائے تجارت کے ذریعے دنیا تک رسائی حاصل کی۔ "بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو" ہو یا افریقہ کے دور دراز علاقوں میں تعمیر ہونے والی سڑکیں، بندرگاہیں اور اسپتال، ہر جگہ چین کا ایک واضح رویہ دکھائی دیتا ہے۔ تعاون، مقابلہ نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں دنیا تقسیم ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگ چین کی اس تیزی سے بڑھتی ہوئی ترقی کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق چین کی معاشی طاقت عالمی توازن کو بدل دے گی، مغربی اثر و رسوخ کم ہو جائے گا اور دنیا ایک نئے مرکزِ طاقت کے زیرِ اثر آ جائے گی۔ لیکن اگر تصویر کو دوسری زاویے سے دیکھا جائے تو یہی ترقی کروڑوں لوگوں کے لیے ایک موقع بھی ہے۔ چین نے پچھلے پچاس برس میں اپنے 80 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو غربت سے نکالا۔ ٹیکنالوجی، زراعت، ہاؤسنگ، مواصلات اور تعلیم کے شعبوں میں اس نے جو انقلاب برپا کیا، وہ تقریباََ ہر اس ملک کے لیے رول ماڈل ہے جو غربت، بے روزگاری اور پسماندگی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔
اگر ہم حقیقت پسندی سے سوچیں تو دنیا کو دو گروہوں میں تقسیم کرنے کا فلسفہ اب پرانا ہو چکا ہے۔ آج کے دور میں ممالک دشمن کم اور ایک دوسرے کے معاشی شراکت دار زیادہ ہیں۔ جب کوئی ملک ترقی کرتا ہے تو وہ تجارت کے لیے نئے دروازے کھولتا ہے، ٹیکنالوجی کے نئے راستے بناتا ہے اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کرتا ہے۔ چین نے جب اپنی مارکیٹ کھولی تو دنیا کے تقریباً ہر ملک کو فائدہ پہنچا۔ اگر چین سستا سامان نہ بناتا تو ترقی پذیر ممالک کی کروڑوں آبادی اپنی بنیادی ضروریات پوری نہ کر پاتی۔ اگر چین اپنی فیکٹریاں نہ چلاتا تو دنیا کی نصف سے زیادہ کمپنیاں سستے خام مال اور کم لاگت پیداوار سے محروم ہو جاتیں۔ اس لیے چین کی ترقی کو صرف "خطرہ" سمجھنا دراصل حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ چین کی ترقی کا اثر صرف عالمی سیاست تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ انسانی زندگی کے ہر شعبے تک پھیل چکا ہے۔ مثال کے طور پر ٹیکنالوجی ہی کو لے لیجیے۔ مصنوعی ذہانت، 5G، روبوٹکس، الیکٹرک گاڑیاں اور کوانٹم کمپیوٹنگ، تقریباً ہر جدید ٹیکنالوجی میں چین نے نہ صرف اپنی جگہ بنائی بلکہ کئی بار دنیا سے آگے نکلنے کا اعلان بھی کیا۔ کچھ حلقوں کے مطابق یہی رفتار خطرے کی علامت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے دروازے کھولنے والا ملک خطرہ کیسے ہو سکتا ہے؟ چین نے اپنی ٹیکنالوجی کسی ایک قوم یا نسل کے لیے مخصوص نہیں رکھی بلکہ اسے پوری دنیا کے ساتھ شیئر کیا۔ کوویڈ کے دوران ویکسین ہو یا طبی سامان، چین نے ہر اس ملک کی مدد کی جس کے پاس وسائل کم تھے۔ یہ طرز عمل کسی خطرے کی نشاندہی نہیں کرتا بلکہ ایک مثبت عالمی کردار کا اظہار ہے۔
پھر سوال یہ ہے کہ "چائنا تھریٹ تھیوری" کس بنیاد پر پروان چڑھی؟ سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک سیاسی اور سفارتی بیانیہ ہے جو کچھ طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ دنیا کی بڑی طاقتیں ہمیشہ سے اپنے اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات کے لیے نئے خطرے تراشتی رہی ہیں۔ کبھی روس خطرہ تھا، کبھی جاپان، کبھی مشرق وسطیٰ، آج چین کو خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک بیانیاتی جنگ ہے، عملی جنگ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چین نے اپنی جدید تاریخ میں کسی ملک پر حملہ نہیں کیا، نہ اس نے کسی خطے پر قبضے کا منصوبہ بنایا۔ اس کی ترقی کا ماڈل جنگ کے بجائے محنت، منصوبہ بندی، سائنسی بنیادوں پر ترقی اور عالمی تعاون پر کھڑا ہے۔
دنیا کا مستقبل کشمکش سے نہیں، تعاون سے بنتا ہے۔ آج کے دور میں کسی بھی ملک کو تنہا ترقی نہیں مل سکتی۔ گلوبلائزیشن نے قوموں کو آپس میں اس طرح باندھ دیا ہے کہ ایک ملک کا فائدہ دوسرے ملک کے نقصان سے مشروط نہیں رہا۔ ایسے میں چین کی ترقی کو دنیا کا مشترکہ موقع سمجھنا زیادہ منطقی ہے۔ چین جس رفتار سے ترقی کر رہا ہے، اس سے دنیا کو دو بڑے فائدے حاصل ہو رہے ہیں:
اول، اس سے عالمی غربت کم کرنے میں مدد مل رہی ہے کیونکہ ترقی پذیر ممالک کو سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی اور سستی مصنوعات مل رہی ہیں۔
دوم، اس سے عالمی مارکیٹ میں مقابلہ بڑھ رہا ہے جس کا براہ راست فائدہ صارفین کو ملتا ہے۔
آخر میں ایک سوال ہم سب کے لیے ہے: کیا ہم دنیا کو خوف کے ذریعے دیکھیں گے یا امید کے ذریعے؟ کیا ہم ترقی کو خطرہ سمجھیں گے یا موقع؟ حقیقت یہی ہے کہ چین آج کے عالمی منظرنامے میں دونوں پہلو رکھتا ہے، اگر کوئی ملک اسے دشمن بنا لے تو یہ خطرہ بن سکتا ہے اور اگر کوئی ملک اسے شراکت دار بنا لے تو یہ سب سے بڑی معاشی اور تکنیکی طاقت بن کر سامنے آ سکتا ہے۔ دنیا کے ممالک کے پاس دو ہی راستے ہیں، یا تو وہ "چائنا تھریٹ تھیوری" کے خوف میں مبتلا رہیں، یا پھر چین کی ترقی کو مثبت زاویے سے دیکھ کر اس کے ساتھ مل کر ایک نئی، زیادہ متوازن اور زیادہ خوشحال دنیا تعمیر کریں۔ تاریخ ہمیشہ اُن قوموں کو یاد رکھتی ہے جو دوسرے ملکوں کی ترقی سے ڈرنے کے بجائے اس سے سیکھتی ہیں۔ شاید یہی وقت ہے کہ ہم بھی اس سبق کو سمجھیں، کیونکہ چین کا عروج نہ صرف اس کا اپنا سفر ہے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک نئے دور کی آمد کا اعلان بھی ہے۔

