Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Brics Ittehad Mein Adam Etemad Ka Beej

Brics Ittehad Mein Adam Etemad Ka Beej

برکس اتحاد میں عدم اعتماد کا بیج

پروفیسر پاؤلو نوگیرو بیتستا کی جانب سے انڈیا کے کردار پر کیا گیا تبصرہ محض ایک وقتی سیاسی بیان نہیں بلکہ ایک گہری فکری بحث کو جنم دیتا ہے جسے برکس کے مستقبل، اس کی ساکھ اور اس کے اسٹرٹیجک اہداف کے تناظر میں سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے۔ پاؤلو بیتستا نہ صرف برازیل کے ایک معروف ماہرِ اقتصادیات ہیں بلکہ برکس نیو ڈیولپمنٹ بینک کے نائب صدر جیسے اہم عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں، جس کی بنا پر ان کی بات کو محض جذباتی یا غیر ذمہ دارانہ بیان کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق انڈیا اس وقت برکس کے اندر ایک "ٹروجن ہارس" کی مانند ہے۔ یعنی ایک ایسا رکن جو بظاہر اتحاد کا حصہ ہے مگر درپردہ مخالف قوتوں کا نمائندہ یا ان کے ایجنڈے کا علمبردار بن چکا ہے۔

انڈیا کا یہ دوہرا کردار اس وقت کھل کر سامنے آیا جب وزیراعظم نریندر مودی نے غزہ میں اسرائیلی مظالم پر کھلی حمایت یا خاموشی اختیار کی۔ ان کی اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے ساتھ قربت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسرائیل، جو اس وقت عالمی سطح پر انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا مرتکب ٹھہرایا جا رہا ہے، اس کے ساتھ مودی سرکار کے تعلقات نہ صرف مسلم دنیا میں انڈیا کی ساکھ کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ برکس کے ان اہداف کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں جو نوآبادیاتی ذہنیت اور مغرب کی اجارہ داری کے خلاف ایک متبادل عالمی نظام کے قیام پر مبنی ہیں۔ برکس کا بنیادی تصور ہی یہ تھا کہ ترقی پذیر ممالک، مغرب کی معاشی غلامی سے نکل کر خود مختار راستے اختیار کریں گے، مگر انڈیا کا جھکاؤ بار بار امریکہ، اسرائیل اور مغربی اتحاد کی طرف دیکھا گیا ہے۔

یہ وہی انڈیا ہے جو امریکہ سے دفاعی معاہدے کرتا ہے، آسٹریلیا، جاپان اور امریکہ کے ساتھ مل کر "کواڈ" میں شامل ہوتا ہے اور چین کے خلاف ہر اس اتحاد کا حصہ بنتا ہے جو مغربی طاقتوں کے زیرِ اثر تشکیل پاتا ہے۔ اس کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ انڈیا نے برکس میں روس، چین، جنوبی افریقہ اور برازیل کی اس پالیسی سے بارہا اختلاف کیا ہے جس کا مقصد ایک کثیر قطبی دنیا کا قیام ہے۔ اس وقت جب روس اور چین عالمی مالیاتی نظام سے امریکی غلبے کو ختم کرنے کے لیے ڈالر سے ہٹ کر لین دین کے متبادل ذرائع تلاش کر رہے ہیں، انڈیا امریکی مالیاتی نظام کا وفادار نظر آتا ہے۔ اگرچہ اس نے بھی بعض مواقع پر روس سے مقامی کرنسی میں تجارت کی کوشش کی ہے، مگر اس کی اسٹریٹجک پالیسی ہمیشہ امریکی مفادات کے گرد گھومتی رہی ہے۔

پروفیسر پاؤلو کا بیان درحقیقت ایک گھنٹی ہے جو برکس کے دیگر اراکین کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آیا انڈیا اس اتحاد کا واقعی مخلص رکن ہے یا وہ ایک ایسا عنصر ہے جو مغرب کے مفادات کو اندر سے پروان چڑھا رہا ہے۔ انڈیا کو ٹروجن ہارس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بظاہر دوست ہے مگر اس کے سینے میں چھپی وفاداریاں کہیں اور کی ہیں۔ برکس کا خواب ایک ایسی دنیا کا تھا جہاں امریکہ اور یورپ کی اجارہ داری ختم کی جائے، مگر انڈیا اس خواب کو تعبیر میں بدلنے کے بجائے، مغرب کے ساتھ تعلقات کو بڑھا کر خود کو ان کا نمائندہ ثابت کر رہا ہے۔ یہ طرزِ عمل اتحاد کے لیے زہر قاتل ہے۔

ایک اور پہلو جس پر غور کرنا ضروری ہے وہ ہے انڈیا کا داخلی سیاسی رجحان، جہاں ہندو قوم پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے، اقلیتوں کو دبایا جا رہا ہے اور ایک خاص نظریے کے تحت عالمی تعلقات ترتیب دیے جا رہے ہیں۔ یہی نظریہ انڈیا کی خارجہ پالیسی پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ اسرائیل کی حمایت صرف اس لیے نہیں ہو رہی کہ انڈیا کو دفاعی ٹیکنالوجی درکار ہے، بلکہ اس کے پیچھے ایک خاص نظریاتی ہم آہنگی بھی ہے جو اسلاموفوبیا پر مبنی ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کو دہشت گرد کہتا ہے، انڈیا کشمیریوں کو۔ اسرائیل اپنی سرزمین پر اجارہ داری کے نام پر مظالم ڈھاتا ہے، انڈیا اسی طرز پر مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن کرتا ہے۔ یہ مماثلت دونوں ممالک کو نظریاتی حلیف بناتی ہے، جو برکس جیسے اتحاد میں، جہاں چین، روس اور ایران جیسے ممالک اسرائیل کے شدید ناقد ہیں، کسی طور قابلِ قبول نہیں۔

پاؤلو نوگیرو بیتستا کا سوال بالکل بجا ہے کہ دنیا کے لوگ کیا سوچیں گے جب برکس جیسے اتحاد میں ایک ملک اسرائیل کی نسل کشی پر خاموشی اختیار کرتا ہے؟ کیا برکس کی ساکھ مجروح نہیں ہوگی؟ کیا اس اتحاد کی اخلاقی برتری کا دعویٰ کھوکھلا نہیں لگے گا؟ ان سوالات کا جواب ڈھونڈنا برکس کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ اگر اتحاد کے اندر موجود رکن ممالک ہی مختلف عالمی طاقتوں کی بولیاں بولنے لگیں تو برکس کا تصور بکھرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ اگر چین اور روس، جنہوں نے برکس کو اقوامِ متحدہ کے متبادل ایک مؤثر پلیٹ فارم کے طور پر دیکھنے کا خواب دیکھا، انڈیا کے اس دوغلے کردار سے صرفِ نظر کرتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنے مفادات کو نقصان پہنچائیں گے بلکہ ایک مشترکہ عالمی نظام کی امیدوں کو بھی مایوسی میں بدل دیں گے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ انڈیا کا یہ طرزِ عمل محض اسرائیل تک محدود نہیں۔ چاہے وہ امریکہ کے ساتھ عسکری مشقیں ہوں یا جاپان و آسٹریلیا کے ساتھ بحری اتحاد، انڈیا اکثر ان تنظیموں کا حصہ بنتا ہے جو برکس کے حریفوں کی تشکیل کردہ ہیں۔ ایسے میں یہ سوال کرنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے کہ برکس کو انڈیا جیسے رکن کی کیا ضرورت ہے؟ کیا محض معیشت کے حجم اور مارکیٹ کی کشش کی بنیاد پر کسی رکن کو اتحاد میں برقرار رکھنا دانائی ہے؟ یا یہ برکس کی اصل روح سے انحراف ہوگا؟ پروفیسر پاؤلو کے تبصرے نے اس سوال کو مرکزی حیثیت دے دی ہے۔

پروفیسر کے بیان پر انڈیا کی جانب سے کوئی باضابطہ ردعمل نہیں آیا، جو اس بات کا بھی عکاس ہے کہ وہ اپنے طرزِ عمل کو دفاع کے لائق نہیں سمجھتا۔ اس خاموشی میں کئی معنی پوشیدہ ہیں۔ یا تو وہ برکس کو اہمیت نہیں دیتا، یا وہ چاہتا ہے کہ اس کا دوہرا کھیل جاری رہے۔ ایک طرف امریکہ سے قریبی تعلقات اور دوسری طرف برکس میں شمولیت، تاکہ دونوں طرف کے فوائد سمیٹے جا سکیں۔ لیکن دو کشتیوں کی سواری کبھی دیرپا نہیں ہوتی۔ برکس کے دیگر اراکین کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ اتحاد کی اصل روح کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں یا اسے ایک ایسا کلب بننے دینا چاہتے ہیں جہاں ہر رکن اپنی ڈفلی بجائے۔

اس پورے معاملے میں چین کا کردار بھی اہم ہے، کیونکہ وہ برکس کا سب سے طاقتور رکن ہے اور اس کی سرد مہری یا خاموشی انڈیا کو مزید دلیر بناتی ہے۔ چین اور انڈیا کے مابین کئی سرحدی تنازعات بھی ہیں، جن کی روشنی میں انڈیا کی امریکہ اور اسرائیل سے قربت، چین کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر چین نے برکس میں انڈیا کے کردار پر کھل کر سوال نہ اٹھایا تو یہ نہ صرف برکس کے لیے بلکہ چین کی اپنی سٹریٹجک پوزیشن کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔

پروفیسر پاؤلو نوگیرو بیتستا کا تبصرہ محض تنقید نہیں بلکہ برکس کو ایک انتباہ ہے۔ ایک ایسا انتباہ جو بتاتا ہے کہ اتحاد کے اندر ہی ایک ایسا عنصر موجود ہے جو دشمن کے مفادات کا پرچارک بن چکا ہے۔ اگر اس انتباہ کو نظر انداز کیا گیا، تو برکس وہی انجام دیکھے گا جو ہر ایسے اتحاد کا ہوتا ہے جس میں اعتماد کی بنیادیں متزلزل ہو جائیں۔ وقت آ گیا ہے کہ برکس اپنے اندر جھانکے اور فیصلہ کرے کہ آیا وہ ایک اصولی اتحاد ہے یا مفادات کا بازار، جہاں سب کچھ بکتا ہے۔ حتیٰ کہ وفاداری بھی۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam