Bikhre Dhyan Se Gyan Hasil Nahi Hota
بکھرے دھیان سے گیان حاصل نہیں ہوتا

وہ لڑکا میرے سامنے بیٹھا اپنی انگلیوں سے میز بجا رہا تھا۔ کبھی کھڑکی کے باہر جھانکتا، کبھی موبائل کی اسکرین روشن ہو جاتی، کبھی پانی کا گلاس اٹھا کر گھونٹ لیتا اور پھر ایسا لگتا جیسے وہ وہیں کہیں گم ہوگیا ہو۔ میں نے پوچھا، "بیٹا! مسئلہ کیا ہے؟" وہ مسکرایا، "سر، میں بہت کچھ سیکھنا چاہتا ہوں، لیکن کچھ بھی سیکھ نہیں پاتا۔ دھیان ہی نہیں ٹھہرتا"۔ اس کی آنکھوں میں ایک ایسی تھکن تھی جو زیادہ کام سے نہیں بلکہ بکھرے کاموں سے پیدا ہوتی ہے۔ میں نے بے اختیار اسے دیکھا اور دل میں ایک جملہ ابھرا: بکھرے دھیان سے گیان حاصل نہیں ہوتا۔ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیکھنے کے لیے معلومات کا زیادہ ہونا ضروری ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیکھنا محض جمع کرنے کا نہیں، فوکس کا فن ہے۔
میں اسے دیکھ کر برسوں پہلے کا ایک منظر یاد آ گیا۔ میرے استاد کہا کرتے تھے کہ انسان کے پاس ایک زندگی ہے مگر ہزاروں خواہشیں، سو کام، دس سمتیں اور ایک بھاگتی ہوئی سوچ۔ اگر انسان اپنی زندگی کو ایک دن کے سورج کی طرح ایک ہی جگہ فوکس کر لے تو پہاڑ بھی پگھل جاتے ہیں، لیکن اگر وہی سورج بادلوں میں بکھر جائے تو کپڑا بھی خشک نہیں کر پاتا۔ ہمارے ذہن کا نور بھی سورج جیسا ہے۔ ایک سمت میں مرکوز ہو جائے تو علم بھی ملتا ہے، فن بھی آتا ہے، رزق بھی بڑھتا ہے، کامیابی بھی قدم چومتی ہے۔ لیکن اگر یہی ذہنی توانائی ہر پانچ منٹ بعد کسی نئے خیال، نئے خوف، نئی خواہش یا نئی آواز کی طرف دوڑ پڑے تو انسان سارا دن تھکا رہتا ہے مگر حاصل کچھ نہیں ہوتا۔
دنیا میں جتنے بڑے عالم، سائنس دان، مصنف یا فنکار گزرے ہیں، ان کی ایک مشترکہ عادت تھی، توجہ کا تسلسل۔ آئن سٹائن برسوں ایک ہی مسئلے پر غور کرتا رہا۔ ابنِ سینا نے جب قانونِ طب لکھنا شروع کیا تو دن مہینوں میں، مہینے سالوں میں تبدیل ہو گئے۔ مولانا روم ایک لفظ پر گھنٹوں بیٹھ جاتے تھے۔ یہ لوگ ذہانت سے زیادہ توجہ کے کمالات تھے۔ توجہ ایک روحانی طاقت ہے اور دنیا کی ہر روحانی کتاب میں اس طاقت کا ذکر صاف موجود ہے۔ ہم نماز میں بھٹک جائیں تو ثواب کم ہو جاتا ہے۔ ہم کتاب پڑھتے ہوئے بھٹک جائیں تو یادداشت مٹ جاتی ہے۔ ہم کسی انسان کی بات سنتے ہوئے بھٹک جائیں تو رشتہ کمزور ہو جاتا ہے۔ بھٹکا ہوا ذہن ہمیشہ ناتجربہ کار رہتا ہے، جیسے ہر راستے پر ایک ایک قدم رکھ کر بھی منزل تک نہ پہنچ پانے والا مسافر۔
میں نے لڑکے کو کہا: "بیٹا! کیا تم جانتے ہو کہ تمہارا ذہن اصل میں کچھ سیکھنا چاہتا ہی نہیں؟ وہ صرف مصروف رہنا چاہتا ہے"۔ وہ چونکا۔ میں نے سمجھایا کہ مصروف ذہن اور مرکوز ذہن دو مختلف چیزیں ہیں۔ مصروف ذہن مسلسل حرکت میں رہتا ہے مگر آگے نہیں بڑھتا۔ مرکوز ذہن کم حرکت کرتا ہے مگر ہر قدم منزل کی طرف ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی زندگیاں سوشل میڈیا کے شور میں دے دی ہیں۔ سوچیں بکھر گئیں، ارادے ٹوٹ گئے اور دل میں وہ سکون باقی نہیں رہا جو کسی ایک سمت فیصلہ کن قدم اٹھانے سے ملتا ہے۔ آج کا نوجوان ہر چیز ایک ساتھ سیکھنا چاہتا ہے، کھیل بھی، کوڈنگ بھی، زبان بھی، کاروبار بھی، کتاب بھی، ویڈیو ایڈیٹنگ بھی لیکن وہ سمجھتا نہیں کہ علم ہمیشہ ایک منبع سے بہتا ہے، ایک راستے سے گزرتا ہے، ایک وقت میں ایک دروازہ کھولتا ہے۔ اگر تم ہزار دروازوں پر دستک دیتے رہو گے تو کوئی بھی دروازہ پورا نہیں کھلے گا۔
میں نے اسے ایک واقعہ سنایا۔ میں نے کہا، "ایک دفعہ ایک کسان نے ایک کنواں کھودنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایک جگہ 6 فٹ کھودا اور پانی نہ نکلا تو دوسری جگہ 7 فٹ کھود لیا۔ پھر 10 فٹ، پھر 12 فٹ، پھر 8 فٹ، سال گزرتے رہے مگر پانی نہ ملا۔ آخر کار ایک بزرگ نے اسے کہا کہ اگر تم پوری زندگی جگہیں بدلتے رہو گے تو کبھی پانی نہیں ملے گا۔ پانی ہمیشہ گہرائی میں ہوتا ہے، پھیلاؤ میں نہیں"۔ لڑکا چپ ہوگیا۔ میں نے اس سے کہا، "بیٹا، سیکھنا ہو تو ذہن کو گہرا کرو، وسیع نہیں۔ ایک راستہ چن لو، پھر اس راستے کو چھوڑو مت۔ علم کا پانی گہرائی میں ملتا ہے، بکھراؤ میں نہیں"۔
وہ سر ہلاتا رہا۔ کچھ دیر کے لیے اس نے موبائل بند کر دیا۔ کھڑکی کے باہر سے نظریں ہٹا لیں۔ انگلیاں بھی رک گئیں۔ میں نے محسوس کیا کہ شاید زندگی میں پہلی بار اس کا ذہن ساکت ہوا تھا۔ پھر وہ بولا، "سر، پھر میں کیا کروں؟" میں نے کہا، "صرف ایک کام کرو: آج سے ہر دن صرف ایک کام پوری توجہ سے کرو۔ صرف ایک۔ تم دیکھنا، ایک ماہ میں تمہاری رفتار بدل جائے گی، چھ ماہ میں تمہاری سوچ بدل جائے گی اور ایک سال میں تمہاری زندگی بدل جائے گی"۔
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ انسان کیا سیکھنا چاہتا ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ کب سیکھنا چاہتا ہے۔ علم تب آتا ہے جب ذہن ایک جگہ ٹکے۔ جیسے بارش کی ایک بوند آئینے پر پڑے تو نشان چھوڑتی ہے، مگر اگر وہی بوند چلتی گاڑی کے شیشے پر گرے تو پھسل جاتی ہے۔ آج ہماری زندگیاں چلتی گاڑی بن چکی ہیں۔ خیالات کی رفتار اتنی تیز ہے کہ کوئی بوند ٹھہر ہی نہیں پاتی اور پھر ہم حیران کھڑے رہ جاتے ہیں کہ ہمیں کچھ یاد کیوں نہیں رہتا؟ ہم کچھ سیکھ کیوں نہیں پاتے؟
میں نے کالم کے شروع میں لڑکے کا ذکر کیا تھا۔ ملاقات کے چھ ماہ بعد وہ دوبارہ آیا۔ اس بار اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی، جس پر اس کا نام لکھا تھا۔ اس نے کہا، "سر، میں نے آپ کی بات مان لی۔ موبائل کے نوٹیفکیشن بند کر دیے۔ روزانہ صرف ایک گھنٹہ ایک ہی موضوع پر کام کیا۔ پہلے مشکل لگا، پھر عادت بن گئی اور اب اس ایک موضوع نے میری زندگی بدل دی ہے"۔ میں مسکرا دیا۔ انسان جب اپنی توجہ کا محافظ بن جاتا ہے تو اس کی زندگی خود اس کی شاگرد بن جاتی ہے۔
آخر میں میں نے اس سے کہا، "بیٹا، یاد رکھو گیان کبھی بکھرے ذہن میں نہیں اترتا۔ علم ہمیشہ اس دل میں اترتا ہے جو ایک ہی سمت جھکا ہو"۔
یہ کائنات کی ایک قدیم ترین حقیقت ہے۔ جو اپنی توجہ کو قابو کر لے، وہ اپنی تقدیر کو قابو کر لیتا ہے اور جو تقدیر بدلنے کا حوصلہ رکھتا ہے، اسے پہلے دھیان کو مرتب کرنا پڑتا ہے، کیونکہ بکھرے دھیان سے گیان حاصل نہیں ہوتا۔

