Aye Watan (1)
اے وطن (1)
اللہ رحمٰن و رحیم نے ہمیں ہمارے پیارے وطن میں بے شمار نعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔ ان میں سے ایک نعمت عظیم ترین بذات خود وطن عزیز ہے۔ جہاں ہم رہتے ہیں، ہمارے آباؤ اجداد رہے اور اب ان کی یادیں ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ ہم ان کی قبروں تک جاتے ہیں ان کی یادیں تازہ کرتے ہیں، ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور ان کی شکر گزاری کرتے ہیں۔ ان مشکلات اور محنتوں کا اعتراف کرتے ہیں جو انہوں نے اپنی زندگیوں میں ہمارے ملک اور ہماری زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کیں۔
ہم وہاں سے تازہ دم ہو کر اور ایک نیا حوصلہ پا کر لوٹتے ہیں۔ وہ ہماری ہمتوں کو جوان کر دیتے ہیں اور ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمارے بچو آپ نے بھی اپنے ملک اور اپنی آئندہ نسل کے لئے اُس سے کہیں بڑھ کر ہمت اور جوانمردی دکھانی ہے جو آپ کو ہم سے وراثت میں حاصل ہوئی۔ اچھی یادیں اور اچھی تربیت اپنے پیچھے چھوڑ کر آنی ہے۔ انہیں ایک خوابناک اور خوشگوار ہنسی دے کے آنی ہے، جو گھنٹی کی طرح بجتی رہے اور دریا کی موج کی طرح بہتی رہے۔ اس طرح تمہاری پھیلائی روشنی تا دیر قائم رہے گی، لوگ مستفید ہوں گے اور تم پیچھے رہ جانے والوں کے دلوں اور امنگوں میں زندہ رہو گے۔
مکمل فیاضی اور سخاوت ہی اصل زندگی ہے۔ کوئی ایک کام ایسا ضرور کر کے جاؤ جو تمہاری یادوں میں رنگ بھرتا رہے، ان میں چمک اور روشنی پیدا کرتا رہے، اور آنے والی نسلیں تمہیں یاد کرتی رہیں، تمہارے لیے دعا کرتی رہیں۔ اگر آپ اچھی سوچ رکھیں گے تو یقیناً اچھی چیزیں آپ کو ملیں گی۔ اپنے ہر دن کے آخری پانچ منٹ اپنے لئے نکالیں اور ان میں اپنی توجہ اس چیز پر مرکوز کریں جو آپ کو اپنی زندگی میں درکار ہے۔ جب آپ سچے اور بے لوث ہوتے ہیں تو اللہ آپ کی محبت دلوں پر نازل کر دیتا ہے۔ الزام تراشی اور شکایت نہ کریں کہ یہ نالائقی کی علامت ہوتی ہے۔
مت شکایت کرو زمانے کی
یہ علامت ہے ہار جانے کی۔
اصل کام ذمہ داری قبول کرنا ہے۔ اللہ کی ہر نعمت کے شکر گزار بنیں۔ بڑا انسان وہ ہے جو شکر گزار ہے۔ احساس میں شکر گزاری ہو تو فرد سے شعائیں نکلتی ہیں۔ بے صبری کم ظرفی کی علامت ہے۔ آدمی جتنا مثبت ہو گا اتنی ہی مثبت چیزیں اس کی طرف آئیں گی۔ رونے دھونے کی باتیں مایوسی کو جنم دیتی ہیں۔ بے شمار حقیقتیں ہماری اطلاع میں ہوتی ہیں مگر یقین میں نہیں ہوتیں۔ جب آپ یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں تو آپ کا ذہن اس کے حصول کے راستے تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جن کی زبان تیز چلتی ہے وہ کبھی دیکھ ہی نہیں پاتے۔ زندگی میں کبھی آنکھ زیادہ کام کر جائے تو نظارہ بدل جاتا ہے۔
یہ احساس کہ مجھے مر جانا ہے، اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ کسی فرعون یا حکمران میں پیدا نہیں ہوتا۔ موت پر یقین نہ ہونے سے سستی اور تاخیر پروان چڑھتے ہیں۔ تلاش کا شعور اس میں پیدا ہوتا ہے، جس سے قدرت کوئی بڑا کام لینا چاہتی ہے۔ موت کا احساس دراصل ڈر کا ہونا ہے، اس ڈر سے نکل جانا چاہئے۔ جو اس ڈر سے نکل جاتا ہے، وہ کام میں لگ جاتا ہے۔ وہ اپنے کام کو ٹارگٹ میں بدل دیتا ہے۔ موت کا خوف تب ہوتا ہے، جب زندگی بے مقصد ہو۔ جس کی زندگی میں مقصد آ جاتا ہے، وہ خوف سے آزاد ہو جاتا ہے۔ کوئی اسائینمنٹ کرنے کا سوچئے، اللہ آپ کو بے خوف کر دے گا۔
ہمارا پیارا ملک دنیا کا خوبصورت ترین ملک ہے۔ ہماری اسائینمنٹ یہ ہے کہ ہم نے اسے اور خوبصورت بنانا ہے۔ وہ سب لوگ جو یہ دنیا اور یہ خوبصورت ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں، اس میں اپنا اپنا حصہ حسبِ توفیق ڈال کر گئے ہیں۔ اس کی خوبصورتیوں میں اضافے کر کے اور نئے رنگ بھر کے گئے ہیں۔ اگر کسی سے اچھا نہ بھی ہو سکا تو ہمارے لئے اس میں بھی ایک سبق ہے کہ یہ کم نصیب کوئی بہتر کام کرنے سے محروم رہے۔ لیکن ہم نے محروم نہیں رہنا۔ دنیا کا ہر انسان ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ ہم نے اپنی تمام تر محبت کا رخ انسان اور خدمت کی طرف موڑ دینا ہے۔
ہم نے ضرور کچھ نہ کچھ اچھا کر کے جانا ہے۔ جو ہمیں ہمارے جانے کے بعد بھی زندہ رکھے اور ہمارے لئے دعاؤں کا ذریعہ بنے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنا فرض کہیں بہتر طریقے سے ادا کریں۔ زندگی میں غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بس سبق ہوتے ہیں۔ سیکھنے سے انسان انکار کر دے تو قدرت ہمارے لئے انہیں دہراتی رہتی ہے۔ یہ کتنی بڑی بات ہے ہم دعا اور توبہ کے لئے اللہ کے دروازے تک چلے جاتے ہیں اور وہ ہماری دعا اور توبہ قبول کرتا ہے۔ کہ جس کی آنکھ میں آنسو ہیں وہ اللہ کی رحمت سے محروم نہیں ہو سکتا۔ اس کے نصیبوں کی کالک دھل جاتی ہے۔
بس سیکھتے رہیں اور کرتے رہیں۔ صدقِ دل ضروری ہے۔ سب کچھ بن جائیں، بے فیض انسان نہ بنیں۔ دولت کے پیچھے نہ بھاگیں کہ دولت کی فراوانی انسانی اوصاف نگل جاتی ہے۔ " تمہیں غافل رکھا مال کی کثرت نے، یہاں تک کہ تم قبروں تک جا پہنچے۔ " پیسہ کامیابی نہیں ہے، اس کا استعمال آزادی کے حصول کے لئے کیجئے۔ تاریخ میں وہی سلامت رہتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل سکیں۔ زندگی کی مشکلات میں ہی زندگی کا حسن ہے۔ راستوں کے کتوں کی پرواہ نہیں کرتے ورنہ منزل نہیں ملتی۔ کتے بھونکنے کے لئے ہوتے ہیں، روکنے کے لئے نہیں۔
خوف انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ جو چیلنج کے سامنے بے خوف ہو کر ڈٹ جانا جانتا ہے اور اس دوران مثبت رہتا ہے وہ جینیئس ہے۔ یاد رکھیں تین چیزوں کو بقا نہیں، مال کو تجارت کے بغیر، علم کو بحث کے بغیر، ملک کو تدبیر کے بغیر۔ ہمیں اپنے اندر مستقبل کو دیکھنے اور تدبیر کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہے۔ ثابت قدم رہنا ہے کہ اللہ کو ماننے والے کبھی لڑکھڑاتے نہیں ہیں۔ مقصد کی تلاش ایک ایسا سوال ہے، جس میں اللہ کے ہاں"ناں" نہیں ہے۔ اس کا جواب آنا ہی آنا ہے۔ اگر آپ محنتی ہیں تو کچھ عرصہ بعد مثال بن جائیں گے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جس کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں۔