Aurat, Pahar Jaisi Istiqamat, Nadi Jaisi Narmi
عورت، پہاڑ جیسی استقامت، ندی جیسی نرمی

عورت کیا ہے؟ یہ سوال محض الفاظ کا ایک مجموعہ نہیں بلکہ انسانی شعور، تہذیب، معاشرت، تاریخ، فلسفہ اور ادب کے نہ ختم ہونے والے سوالات میں سے ایک ہے۔ عورت کے مفہوم کو کسی ایک تعریف، ایک فقرے یا ایک تصور میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تخلیق کی روح ہے، محبت کی زبان ہے، قربانی کا پیکر ہے، صبر کا پرتَو ہے اور مزاحمت کی بلند دیوار ہے۔ وہی عورت کبھی ماں کے روپ میں تربیت گاہ بن جاتی ہے، کبھی بہن کی صورت میں دعاؤں کا سایہ، کبھی بیوی بن کر شریکِ سفر ہوتی ہے اور کبھی بیٹی بن کر زندگی کی رونق۔
عورت میں ایک عجیب طرح کی دو رُخی طاقت ہوتی ہے۔ نرمی اور سختی، برداشت اور بغاوت، خاموشی اور احتجاج۔ جب وہ خاموش ہوتی ہے تو صدیوں تک ظلم سہہ لیتی ہے اور جب بولتی ہے تو زمانے کا چہرہ بدل ڈالتی ہے۔ جب صبر کرتی ہے تو تاریخ کی سب سے بڑی قربانیوں کی داستان بن جاتی ہے اور جب ظلم کے خلاف کھڑی ہوتی ہے تو وہی ظالم دنیا اس کی استقامت کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو عورت کے دو چہرے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک وہ جو پاؤں کی جوتی سمجھی گئی اور دوسرا وہ جو تخت و تاج کی مالکہ بنی۔ وہ کبھی جہیز میں لُٹتی عزت بنی، تو کبھی میدانِ جنگ میں صف شکن۔ جسے دنیا نے کمزور مخلوق کہا، وہی عورت جب ڈٹ جائے تو اپنے بچے کو امام حسینؓ بنا کر کربلا کے تپتے میدان میں بھیج دیتی ہے اور جب دل شکستہ ہو، تو ایک نالی کے کنارے بیٹھ کر رو دیتی ہے اور دنیا کو خبر بھی نہیں ہوتی۔
عورت کی زندگی قربانیوں سے شروع ہو کر قربانیوں پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ بچپن سے ہی ماں کی ڈانٹ، بھائی کی غیرت، باپ کی شرم اور خاندان کی عزت کے نام پر جکڑی جاتی ہے۔ اسے سکھایا جاتا ہے کہ دوسروں کے لیے جینا ہی اس کا اصل مقام ہے۔ اپنی خوشی، اپنی خواہش، اپنی آزادی، اپنے خواب، سب کچھ قربان کر دینا، یہی اس کی تربیت ہے اور یہ تربیت اس میں ایک ایسی خوبصورتی پیدا کر دیتی ہے جو دنیا کی کسی اور مخلوق میں نہیں پائی جاتی۔
لیکن جب وہ اپنی ذات کی پہچان کر لیتی ہے، تو دنیا کو اپنی مٹھی میں لینے کی طاقت رکھتی ہے۔ وہ ادارے بناتی ہے، نسلیں سنوارتی ہے، سماج کی بنیاد رکھتی ہے اور اگر وقت آئے تو خود کو قربان کرکے آنے والی نسلوں کو بچا لیتی ہے۔ اس کی زندگی خدمت، تربیت، محبت اور ایثار کے گرد گھومتی ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ عورت جب تک خاموش رہتی ہے، سہنی پڑتی ہے اور جب بولتی ہے، تو سماج کی آنکھ میں کھٹکنے لگتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ عورت کو کیوں کمزور سمجھا جاتا ہے؟ کیا صرف اس لیے کہ وہ روتی ہے؟ تو رونا تو انسانیت کی علامت ہے۔ جس کے دل میں احساس ہوتا ہے، وہی روتا ہے۔ نالی کے کنارے بیٹھ کر رونے والی عورت دراصل معاشرے کی بے حسی پر ماتم کرتی ہے۔ وہ کوئی کمزور ہستی نہیں، بلکہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنی خودغرضی، بےحسی اور منافقت کا عکس دیکھنے سے ڈرتے ہیں اور جب وہ پہاڑوں کو چیرنے پر آ جائے، تو وہی عورت سائنس دان بھی بنتی ہے، پائلٹ بھی، فوجی بھی اور سیاست دان بھی۔ دنیا کا کوئی میدان ایسا نہیں جہاں عورت نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہ منوایا ہو۔
ہمیں عورت کو صرف جذبات، حسن یا کمزوری کی علامت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ ایک مکمل انسان کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے۔ ایسا انسان جس کے پاس دل بھی ہے، دماغ بھی، جذبے بھی اور خواب بھی۔ وہ صرف دوسروں کے لیے جینے والی ہستی نہیں، بلکہ اپنے لیے بھی جینے کا حق رکھتی ہے۔ وہ صرف ماں، بہن، بیوی یا بیٹی نہیں، بلکہ ایک فرد، ایک شہری، ایک سوچ اور ایک وجود ہے۔
یہ سچ ہے کہ عورت بہت کچھ سہہ لیتی ہے، برداشت کر لیتی ہے، لیکن برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ جب وہ حد پار ہو جائے تو یہی عورت انقلاب کی پیش رو بن جاتی ہے۔ دنیا کے بڑے انقلابات کے پیچھے عورت کی قربانی، اس کی جرأت اور اس کا وژن ہوتا ہے۔ چاہے وہ حضرت خدیجہؓ ہوں، جو نبی کریمﷺ کی پہلی اور سب سے بڑی تائیدگار بنیں، یا حضرت زینبؓ، جنہوں نے یزید کے دربار میں کلمۂ حق بلند کیا۔ ہر زمانے میں عورت نے خود کو منوایا ہے، بس ضرورت ہے اسے سمجھنے، ماننے اور عزت دینے کی۔
عورت ایک لمحے میں دنیا کو جیت سکتی ہے اور ایک لمحے میں سب کچھ چھوڑ بھی سکتی ہے۔ اس کا دل بہت بڑا ہوتا ہے، مگر جب ٹوٹ جائے تو آوازیں نہیں دیتا، خاموشی سے بکھر جاتا ہے۔ اس کی خاموشی میں چیخیں ہوتی ہیں، اس کی مسکراہٹ میں درد چھپا ہوتا ہے اور اس کے سلیقے میں صدیوں کی کہانی۔ وہ جب محبت کرتی ہے تو اُس میں فنا ہو جاتی ہے اور جب نفرت کرتی ہے تو سب کچھ جلا دیتی ہے۔ وہ جب ماں ہوتی ہے تو جنت اس کے قدموں تلے ہوتی ہے اور جب بیٹی ہوتی ہے تو باپ کے لیے رحمت کا پیغام۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عورت کو سب کچھ سہنا پڑتا ہے، لیکن عزت ہمیشہ اسے خود ہی کمانی پڑتی ہے۔ معاشرہ اس سے توقعات تو بے شمار رکھتا ہے، مگر اسے حقوق دینے میں ہمیشہ بخل سے کام لیتا ہے۔ تعلیم، صحت، وراثت، فیصلہ سازی، روزگار۔ یہ سب میدان اب بھی عورت کے لیے مکمل طور پر ہموار نہیں ہو سکے۔ عورت کو آگے بڑھنے کے لیے دوگنی محنت، دوہری مخالفت اور ہر قدم پر خود کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔
عورت کو صرف جسم نہیں، روح بھی سمجھنا ہوگا۔ وہ صرف صنفِ نازک نہیں، ایک باوقار اور خودمختار شخصیت بھی ہے۔ اسے مرد کی ملکیت یا معاشرے کی زینت سمجھنے کے بجائے، اس کی شناخت اور اس کے اختیار کے ساتھ تسلیم کرنا ہوگا۔ عورت کو جب آزادی دی جاتی ہے، تو وہ آزاد ہو کر بگڑتی نہیں، بلکہ سنورتی ہے، پروان چڑھتی ہے اور دنیا کو سنوارتی ہے۔ اسے جب عزت دی جاتی ہے، تو وہ اس عزت کو نسلوں تک منتقل کرتی ہے۔
جب عورت ڈٹ جائے، تو انقلاب آتے ہیں اور جب تھک جائے، تو خود سے خفا ہو جاتی ہے۔ اس کی تھکن کو سنبھالنا، اس کے خوابوں کو سمجھنا اور اس کے حق کو دینا، صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ایک مضبوط عورت صرف خود نہیں بنتی، وہ پورے خاندان، پورے سماج اور آنے والی نسلوں کی بنیاد رکھتی ہے۔
عورت، دراصل، ایک زندہ و جاوید استعارہ ہے۔ زندگی کا، محبت کا، قربانی کا اور تخلیق کا۔ وہ کبھی انمول ہوتی ہے، تو کبھی نظر انداز۔ وہ کبھی خود کو مٹا دیتی ہے، تو کبھی دنیا کو جگا دیتی ہے۔ وہ ایک سوال ہے جس کا جواب ہر دل میں ہے، مگر زبان پر لانا مشکل ہے۔ وہ ایک ایسا چراغ ہے جو جلتا بھی ہے، روشنی بھی دیتا ہے اور کبھی کبھار جل کر بجھ بھی جاتا ہے۔
لیکن جب وہ بجھ جائے، تو اندھیرا رہ جاتا ہے۔
اور یہی عورت کی اصل طاقت ہے۔

