Aik Baar Lahore Phir Sab Se Aage
ایک بار پھر لاہور ہی سب سے آگے

پنجاب کی سیاست میں ایک پرانا اور تلخ سوال بار بار سر اٹھاتا ہے۔ کیا پنجاب صرف لاہور اور اس کے مضافات کا نام ہے؟ یا پھر وہ وسیع و عریض خطہ بھی پنجاب ہے جو دریائے سندھ کے کنارے آباد ہے، جہاں اٹک، تلہ گنگ، میانوالی، بھکر، راجن پور اور ڈی جی خان جیسے اضلاع سانس لیتے ہیں، مگر فیصلوں کی میز سے بہت دور بیٹھے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے لودھراں میں ہونہار اسکالرشپ اور لیپ ٹاپ اسکیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بڑے اور پرکشش اعلانات کیے۔ 2026 کو یوتھ کا سال قرار دیا، اگلے سال ایک لاکھ الیکٹرک بائیکس دینے کا اعلان کیا، ایک لاکھ لیپ ٹاپ اور ایک لاکھ اسکالرشپس کا وعدہ کیا، پرواز کارڈ متعارف کرانے کی بات کی، پورے پنجاب میں آئی ٹی سٹیز بنانے کا عندیہ دیا، مگر جب بات آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے مرکز کی آئی تو فیصلہ ایک بار پھر لاہور کے حق میں ہوا۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں دعوؤں اور زمینی حقیقت کے درمیان خلیج صاف نظر آنے لگتی ہے۔
لودھراں میں تقریب منعقد کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ دل میں شہروں کی کوئی تفریق نہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اگر واقعی تفریق نہیں تو پھر ہر بڑے، اسٹریٹجک اور مستقبل ساز منصوبے کا قبلہ لاہور ہی کیوں بنتا ہے؟ اے آئی سنٹر اٹک میں کیوں نہیں ہو سکتا جہاں خیبرپختونخواہ سے جغرافیائی قربت ہے؟ تلہ گنگ میں کیوں نہیں، جو دہائیوں سے انتظامی بے توجہی کا شکار ہے؟ میانوالی، بھکر اور راجن پور کیوں اس فہرست سے باہر رہتے ہیں؟ کیا یہ اضلاع پنجاب کا حصہ نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے دباؤ نے لودھراں کی تقریب ممکن بنائی۔ دباؤ نے ملتان اور بہاولپور ڈویژن کے سات ہزار طلبہ کو ایک چھت تلے جمع کیا۔ دباؤ نے یہ ثابت کیا کہ جو بولے گا، جو آواز اٹھائے گا، اسی کو کچھ نہ کچھ ملے گا اور جو خاموش رہے گا وہ محرومی کو مقدر بنا لے گا۔ یہی فارمولا ماضی میں بھی چلتا رہا ہے اور آج بھی پوری آب و تاب سے نافذ ہے۔
یہ ماننا پڑے گا کہ پنجاب میں صفائی کے حوالے سے کام ہو رہا ہے، ستھرا پنجاب کے اہلکار شہروں اور دیہات میں نظر آتے ہیں، لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر ہوئی ہے، سی سی ڈی کی کارکردگی پر مخالفین بھی داد دینے پر مجبور ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ کام جو مرد چیف منسٹرز نہ کر سکے، ایک خاتون وزیراعلیٰ نے کر دکھایا۔ ان کامیابیوں سے انکار ممکن نہیں اور نہ ہی انکار ہونا چاہیے۔ مگر سوال کامیابیوں کا نہیں، سوال انصاف کا ہے۔ جب گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں نئی میٹرو بسوں کے منصوبے سامنے آتے ہیں تو دل میں یہ چبھن پیدا ہوتی ہے کہ کیا یہ شہر پہلے ہی اپنے حصے سے زیادہ نہیں لے چکے؟ کیا اب بھی ان کی جھولی ہی بھری جائے گی اور دریائے سندھ کے کنارے آباد اضلاع صرف فہرستوں اور تقاریر میں زندہ رہیں گے؟ اگر تیس ہزار کلومیٹر سے زائد سڑکیں دو سال میں مکمل ہونی ہیں تو اس میں مغربی پنجاب کو شامل کرنا کوئی احسان نہیں بلکہ آئینی اور اخلاقی فرض ہے۔
وی وی آئی پی اور ڈالہ کلچر کے خاتمے، میرٹ پر اسکالرشپس کی تقسیم، پانچ لاکھ نوجوانوں کو اسکلز ٹریننگ دینے، پنجاب پولیس کی بہتری اور این ایف سی ایوارڈ کے فنڈز عوام پر خرچ کرنے جیسے دعوے اپنی جگہ، مگر سوال پھر وہی ہے کہ یہ عوام کون ہیں؟ کیا دریائے سندھ کے کنارے بسنے والے عوام اس تعریف سے باہر ہیں؟ اگر پنجاب دوسرے صوبوں کے لوگوں کو روزگار اور صحت کی سہولیات دے سکتا ہے تو اپنے ہی صوبے کے محروم اضلاع کو کیوں بھول جاتا ہے؟ اس کے باوجود دوسرے صوبے شکر گزاری کی بجائے گالیوں، شکوؤں اور احساسِ بیگانگی کو ہی ہوا دیتے ہیں۔ تو اس خوشامد کی کیا ضرورت ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اب جنوبی پنجاب میں شناخت کے سوال ابھر رہے ہیں، لوگ خود کو پنجابی کہلوانے سے زیادہ سرائیکی کہنے لگے ہیں اور یہ تبدیلی محض لسانی نہیں بلکہ ریاستی رویے کا ردعمل ہے۔
دوسری طرف ماڈل بازاروں کی بیوٹیفکیشن، ننکانہ میں گوردوارہ جنم استھان تک ماڈل روڈ، سانگلہ ہل، شاہ کوٹ اور واربرٹن کے منصوبے تیزی سے منظور ہو جاتے ہیں۔ اقلیتوں کو سہولت دینا درست اور قابلِ تحسین ہے، مگر ترجیحات کا توازن بھی ضروری ہے۔ گوردوارے تک سڑک بنانا اگر ضروری ہے تو راجن پور کے کسی دیہات تک پکی سڑک کیوں عیاشی سمجھی جاتی ہے؟ ننکانہ میں ماڈل روڈ اگر ترقی کی علامت ہے تو تلہ گنگ یا بھکر میں بنیادی انفراسٹرکچر کیوں خواب ہی رہتا ہے؟ انصاف یہی ہے کہ حسنِ سلوک سب کے ساتھ ہو، مگر ترجیح ان شہریوں کو دی جائے جو دہائیوں سے نظر انداز چلے آ رہے ہیں۔
یہ کالم کسی بلا وجہ تنقید یا مخالفت میں نہیں لکھا جا رہا، بلکہ اس امید کے ساتھ کہ شاید وزیراعلیٰ پنجاب کے دل پر کچھ اثر ہو۔ مریم نواز شریف کے پاس ایک تاریخی موقع ہے کہ وہ واقعی ثابت کریں کہ پنجاب ان کے نزدیک ایک نقشے کا نام نہیں بلکہ برابر کے حقوق رکھنے والے انسانوں کا مجموعہ ہے۔ اگر واقعی دل میں شہروں کی کوئی تفریق نہیں تو آئندہ کسی بڑے منصوبے کا افتتاح دریائے سندھ کے کنارے کریں، کسی اے آئی سنٹر کی بنیاد اٹک، تلہ گنگ یا میانوالی میں رکھیں، کسی میٹرو، انجنیئرنگ یونیورسٹی، میڈیکل کالج یا کسی بڑے ہسپتال کا اعلان اور سنگ بنیاد تلہ گنگ، میانوالی اور راجن پور کے لیے کریں۔ تب مانا جائے گا کہ لاہور سے باہر بھی پنجاب آباد ہے۔ ورنہ تاریخ یہی لکھے گی کہ اعلانات بہت ہوئے، تقریریں شاندار تھیں، مگر انصاف، مفاد اور ترقی کا رخ ایک بار پھر لاہور میں ہی رہا۔

