Taleemi Emergency Ke Baad
تعلیمی ایمرجنسی کے بعد
گزشتہ دس سالوں کے دوران خیبر پختونخوا میں تعلیمی ایمرجنسی کے نام پر کیے جانے والے اقدامات نے تعلیمی نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ تعلیم کے ساتھ نت نئے تجربات نے تعلیمی نظام پر چھری پھیرنے کا کام کیا ہے۔ ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں پرائمری سے لیکر جامعات تک تمام تعلیمی اداروں کی حالت بگڑتی جا رہی ہے، اور اس کے نتائج طلباء، والدین، اور اساتذہ کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق، خیبر پختونخوا میں 543 سکولز غیر فعال ہیں۔ ان غیر فعال سکولوں میں سے اکثر عمارتیں ویران پڑی ہیں اور ان میں تدریسی عمل بالکل بھی نہیں ہوتا۔ یہ صورتحال تعلیمی نظام کی ناکامی کی علامت ہے۔ ان سکولوں کی عمارتیں یا تو بالکل خالی پڑی ہیں یا پھر ان کا استعمال کسی اور مقصد کے لئے ہو رہا ہے، جس سے سرکاری وسائل کا ضیاع ہو رہا ہے۔
اساتذہ کی خالی آسامیاں بھی ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ صوبے میں اس وقت 12 ہزار سے زائد اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں۔ بھرتیوں پر پابندی کی وجہ سے یہ خالی آسامیاں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں، جس سے تعلیمی نظام میں خلل پیدا ہو رہا ہے۔ یہ خالی آسامیاں نہ صرف تعلیمی معیار کو متاثر کرتی ہیں بلکہ طلباء کی تعلیم میں بھی رکاوٹ بنتی ہیں۔ جب اساتذہ کی کمی ہوتی ہے، تو طلباء کو معیاری تعلیم فراہم نہیں کی جا سکتی اور ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ کئی یونیورسٹیوں کی زمین کی فروخت کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں جس سے ان اداروں کے مالی اور تعلیمی حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ تعلیمی اداروں کی خودمختاری اور ان کے مالی وسائل کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے گا۔ زمین کی فروخت کے بعد، یونیورسٹیاں اپنے مالی مسائل حل کرنے کے لیے اور بھی مشکلات کا سامنا کر سکتی ہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ طلباء کو کتابوں کی عدم دستیابی ہے۔ سکولوں میں کتابوں کی فراہمی میں تاخیر اور نااہلی کی وجہ سے طلباء کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ تعلیمی مواد کی کمی سے طلباء کا سیکھنے کا عمل سست پڑ جاتا ہے اور ان کی تعلیمی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کتابوں کی عدم دستیابی سے طلباء کی تعلیمی کارکردگی میں کمی آتی ہے اور وہ اپنے نصاب کو مکمل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
تعلیمی نظام میں ان مسائل کی جڑ ناقص پالیسی سازی اور انتظامی کمزوری ہے۔ غیر فعال سکولز، خالی آسامیاں، کتابوں کی عدم دستیابی، اور یونیورسٹیوں کی زمین کی فروخت جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے جامع اور موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ یہ مسائل نہ صرف طلباء کی تعلیم کو متاثر کرتے ہیں بلکہ صوبے کی تعلیمی ترقی کو بھی روک دیتے ہیں۔
حکومت کو تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، غیر فعال سکولز کو فعال کیا جائے اور ان میں تدریسی عمل دوبارہ شروع کیا جائے۔ اساتذہ کی خالی آسامیاں فوری طور پر پر کی جائیں تاکہ طلباء کو معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے۔ کتابوں کی بروقت فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ طلباء کو نصاب مکمل کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔
تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے جامع اور موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو تعلیمی اداروں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا چاہئے، جیسے کہ بجلی، پانی، اور بیت الخلاء کی فراہمی۔ اساتذہ کی تربیت اور ان کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لئے خصوصی پروگرامز کا انعقاد کیا جائے۔ تعلیمی اداروں کی مالی حالت کو بہتر بنانے کے لئے بھی اقدامات اٹھائے جائیں۔
خیبر پختونخوا میں تعلیمی نظام کی بگڑتی ہوئی صورتحال ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ ناقص پالیسیوں اور نت نئے تجربات نے تعلیمی نظام کو نقصان پہنچایا ہے جس کے نتائج طلباء، والدین اور اساتذہ کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ مستقبل کی نسلوں کی بہتری کے لئے تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے جامع اور موثر پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ حکومت کو تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے فوری اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ طلباء کو معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے اور صوبے کی تعلیمی ترقی ممکن ہو سکے۔
میری یہ تحریر خیبر پختونخوا کے تعلیمی نظام کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے اور حکومتی اقدامات کی ناکامیوں کو اجاگر کرتی ہے۔ اس کالم کے ذریعے حکومتی اداروں کو فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے تاکہ تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جاسکے۔