Mujawza Aaeeni Tareem Par Hukoomat Aur Opposition Ka Muaqif
مجوزہ آئینی ترمیم پر حکومت اور اپوزیشن کا موقف
پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک اہم مسئلہ 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے جنم لے چکا ہے، اور اس وقت مولانا فضل الرحمان دونوں جانب سے مرکزِ نگاہ بنے ہوئے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی مولانا کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ان کا سیاسی اثر و رسوخ اور ان کی جماعت کی مقبولیت اس ترمیم کے حوالے سے فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ اس ترمیم میں عدلیہ سے متعلق چند اہم تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، جنہوں نے سیاسی میدان میں نہ صرف تنازعہ کو جنم دیا ہے بلکہ عدلیہ کی خودمختاری اور شفافیت پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
مجوزہ ترمیم میں 54 نکات پر غور کیا جا رہا ہے، جن میں سب سے زیادہ توجہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر مرکوز ہے۔ اس عدالت کا مقصد آئینی معاملات کے لیے مخصوص عدالت فراہم کرنا اور سپریم کورٹ پر بوجھ کم کرنا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ اقدام آئینی مقدمات کی جلد از جلد سماعت اور فیصلے کے لیے ضروری ہے، تاکہ عام شہریوں کو انصاف مل سکے اور عدالتیں بہتر طریقے سے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔
ایک اور اہم تجویز ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی ہے۔ اس نئی ترمیم کے مطابق، ججز کی تقرری کے لیے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے گا، جس میں عدلیہ کے اراکین کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ اور حکومت کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار سے تقرریوں میں شفافیت اور عدلیہ میں جمہوری احتساب کو فروغ ملے گا۔ مزید برآں، دوہری شہریت رکھنے والے افراد کو ججز کے عہدے کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے تاکہ ایسے افراد جو کسی دوسرے ملک کے شہری بھی ہیں، پاکستان کی عدلیہ میں شامل نہ ہو سکیں۔
حکومت کے مطابق، یہ تمام ترامیم عدلیہ کی کارکردگی اور شفافیت کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ وفاقی آئینی عدالت کا قیام سپریم کورٹ پر دباؤ کم کرے گا اور آئینی مسائل کے جلد حل کے لیے مؤثر ثابت ہوگا۔ ججز کی تقرری میں حکومت اور پارلیمنٹ کے نمائندوں کی شمولیت سے عدالتی نظام میں جمہوری اصولوں کے تحت نگرانی ممکن ہوگی اور عدلیہ کو مزید مستحکم اور مضبوط بنایا جا سکے گا۔
دوسری جانب، اپوزیشن جماعتوں نے اس ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے عدلیہ کی خودمختاری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے عدلیہ کے اندر غیر ضروری تقسیم پیدا ہوگی اور سپریم کورٹ کے اختیارات کمزور ہو جائیں گے۔ ان کے نزدیک، ججز کی تقرری کے نئے طریقہ کار سے حکومت عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے، اور یہ سیاسی مداخلت انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔
اپوزیشن کا دوہری شہریت رکھنے والے ججز کی نااہلی پر بھی اعتراض ہے۔ ان کے مطابق، یہ قانون قابل اور تجربہ کار ماہرین کو عدلیہ میں شامل ہونے سے روکے گا، جنہوں نے بیرون ملک قانون کے میدان میں خدمات انجام دی ہیں اور وہ پاکستان کی خدمت کے خواہاں ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے اہل اور قابل افراد کو نظامِ عدل سے باہر رکھا جا رہا ہے، جو ملک کے مفاد کے لیے نقصان دہ ہے۔
اس ترمیم کے حوالے سے جاری بحث نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی تنازعہ کو مزید بڑھا دیا ہے، اور مولانا فضل الرحمان کی حمایت کے بغیر یہ معاملہ آگے بڑھنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ مولانا کی جماعت کی سیاسی اہمیت اور ان کا اثر و رسوخ ان ترامیم کی منظوری یا ناکامی میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
یہ آئینی ترمیم ایک جانب حکومت کی جانب سے عدالتی اصلاحات کے طور پر پیش کی جا رہی ہے، جبکہ دوسری طرف اپوزیشن اسے عدلیہ کی خودمختاری پر حملہ قرار دے رہی ہے۔ اس تنازعے کی شدت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آئینی ترامیم کا یہ معاملہ نہ صرف عدالتی نظام پر اثر انداز ہوگا بلکہ ملک کی سیاست میں بھی ایک نیا موڑ لا سکتا ہے۔ عوام کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو سمجھیں اور اس کے ممکنہ اثرات کا ادراک کریں تاکہ وہ اس اہم آئینی معاملے میں اپنا مؤقف بہتر طور پر قائم کر سکیں۔