Chalte Ho To Baku Chalte Hain (6)
چلتے ہو تو باکو چلتے ہیں (6)

لگ بھگ چار بجے موبائل پر میسج ٹون سے آنکھ کھلی، شکیب اور روزا کے میسج تھے، میری غیر حاضری پر شکیب ناراض ہو رہا تھا، وہ ملنے کیلئے آنا چاہتا تھا، میں اسے جوابی میسج کیا "اپنے آفس کی لوکیشن بھیجو، میں خود آتا ہوں "، دراصل اب تک باکو مجھے بہت پسند آیا تھا اور میں گھوم پھر کر ایکسپلور کرنا چاہتا تھا، وہ بضد ہوا "اپنی لوکیشن بھیجو، میں ڈرائیور بھیج رہا ہوں "، میرے اصرار پر اس نے اپنے آفس کی لوکیشن بھیجی، وائس میسج پر ٹھیک سے سمجھایا اور تاکید کی "میٹرو ٹرین کے ذریعے آؤ"، یہ آئیڈیا اچھا تھا، پھر روزا کے میسج دیکھے، وہ اپنی خالہ کے گھر پہنچ چکی تھی، اسے جوابی میسج بھیجا "بہت قریبی دوست سے ملنے جانا ہے، وہاں سے فری ہو کر رابطہ کروں گا"۔
میں فریش ہو کر نیچے اترا، سڑک کے دونوں اطراف وسیع فٹ پاتھ، بلند قامت درختوں کی چھاؤں نے پوری سڑک کو ڈھانپ رکھا تھا، باکو میں ایسے مناظر بہت دیکھنے کو ملے، یہاں سے دائیں طرف سڑک ڈھلوان نما تھی، گوگل میپ کھول کر مطلوبہ لوکیشن ڈالی، میٹرو ٹرین منتخب کی، پہلے مجھے جعفر جبار علی میٹرو سٹیشن پر جانا تھا، گرین لائن ٹرین پر سوار ہو کر 28 مئی مول کے مرکزی میٹرو سٹیشن سے سرخ لائن کیلئے ٹرین تبدیل کرنا تھی، دائیں طرف میٹرو سٹیشن تین منٹ کی واک پر تھا، پیدل ہولیا، دائیں بائیں مختلف اشیاء کی دکانیں سجی تھیں، دو منٹ بعد دائیں ہاتھ ایک وسیع قطعہ ارضی نظر آیا، یہاں چھوٹے چھوٹے درخت تھے اور بڑا واک ٹریک، تازہ ہوا کے جھونکے نے استقبال کیا تو طبیعت خوش ہوگئی، میٹرو سٹیشن کے بالمقابل نصب فوارے میں تازہ پانی اچھل رہا تھا۔
میٹرو سٹیشن کے داخلی دروازے کے بعد سیکیورٹی سکینر سے گزرا، آگے ہال میں بائیں طرف چار عدد آٹو میٹک مشینیں نصب تھیں، وہاں سے دو منات کا باکی کارڈ خریدا، دس منات کا بیلنس کروایا اور نیچے کی طرف جاتی برقی سیڑھیوں کی طرف بڑھا، سیڑھیوں کے عین اختتام پر سیکیورٹی کیبن میں ایک رشین بڑھیا یونیفارم پہنے بیٹھی تھی، سیڑھیوں سے اتر کر ایک سیکورٹی گارڈ سے گرین لائن کا پوچھا، اس نے دائیں طرف اشارہ کیا، رش زیادہ تھا، ہر طرف خوش شکل چہروں کی بھرمار، دیوار پر نصب گھڑی اگلی ٹرین کی آمد میں دو منٹ بتا رہی تھی، اتنے میں میرے دائیں ہاتھ ایک آذری خاتون اپنی نوجوان بیٹی کے ہمراہ آن کھڑی ہوئی، بہت ہی معصوم چہرہ تھا، دونوں نے سر پر سیاہ سکارف پہنے اور شانوں پر سیاہ چادریں ڈال رکھی تھیں، ٹرین کی سمت دیکھنے کیلئے خاتون پلیٹ فارم پر تھوڑا آگے جھکی تو سیاہ چادر کی پشت پر سنہری کڑھائی سے کشیدہ خط کوفی میں لفظ "حسین" نظر آیا، یہ دونوں ماں بیٹی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی تھیں، اس سے ٹرین کا استفسار کیا تو وہ بولی "ٹرین آ رہی ہے"۔
ٹرین میں زیادہ رش نہیں تھا، دو سیٹیں خالی دیکھ کر آذری ماں بیٹی کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود کھڑا رہا، اگلا سٹیشن 28 مئی تین منٹ بعد ہی آ گیا، یہاں اتر کر سرخ لائن کی طرف جانے کیلئے ایک سیکیورٹی گارڈ سے رہنمائی لی، اس نے بائیں طرف جانے کا اشارہ کیا، مرکزی میٹرو سٹیشن ہونے کے ناطے یہاں رش زیادہ ہوتا ہے، میں گردن گھما کر سابقہ سوویت یونیین دور کے بنے میٹرو سٹیشن کی چھت کو دیکھنے لگا، چوڑے عمودوں کی دیواروں پر آرٹ کے دلدادہ ہنرمند ہاتھوں نے سائنس، فلسفہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے بے مثال فن پارے تخلیق کیئے ہیں، اس تاریخی ورثے کو ابھی تک آذربائیجان والوں نے سینے سے لگا کر رکھا ہے اور رکھنا بھی چاہیئے کیونکہ یہ اب تاریخ بن چکی ہے۔
ایک سیاح جب سیاحت کیلئے کسی ملک یا خطے کا انتخاب کرتا ہے تو وہ ایسی چیزیں دیکھنا چاہتا ہے جو منفرد ہوں، جن کا اس نے پہلے مشاہدہ نہ کیا ہو اور باکو ایسی چیز ہے کہ ہر کس و ناکس کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے، برصغیر کے لوگ کہتے ہیں کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا نہیں ہوا، باکو جا کر مجھے احساس ہوا تھا کہ جس نے باکو نہیں دیکھا وہ بھی پیدا نہیں ہوا۔ یہاں آپ کو قدیم و ماڈرن دور کی ہر چیز ملے گی، بہترین ٹرانسپورٹ سہولیات جو کسی بھی سیاح کی اولین ترجیح ہوتی ہے، ایماندار لوگ، ہنس مکھ، دوستانہ مزاج، غرض یہ کہ سڑک کنارے یا چوراہوں میں نصب مشاہیر کے مجسمے، بڑے شاپنگ مال، ساحل سمندر سے لیکر یہاں آپ کو ہر وہ چیز ملے گی جو آپ کسی بڑے اور ماڈرن یورپی شہر میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ شراب بھی بکتی ہے لیکن سرعام کسی کو پیتے یا غل غپاڑہ کرتے نہیں دیکھا، اگر کوئی مے نوشی کرنا چاہے تو دکاندار اسے بوتل تھیلے میں ڈال کر دیتا ہے، یہ ماحول باکو کو اہل خانہ سمیت وزٹ کرنے کے قابل بناتا ہے اور وہاں کئی پاکستانی و انڈین اپنے اہل خانہ کے ہمراہ نظر آئے تھے۔
ٹرین کی آواز سنائی دینے پر اس کی سمت نگاہ کی، تب نظر آیا کہ وہ دونوں ماں بیٹی میرے دائیں ہاتھ ہی کھڑی تھیں، ٹرین میں اب بھی رش تھا، کھڑے ہونے کی بمشکل جگہ تھی، وہ دونوں میرے ساتھ ہی کھڑی ہوگئیں، ٹرین چل پڑی تو میں نے اس خاتون سے رشین زبان میں پوچھا "کاراکارائف سٹیشن کب آئے گا؟" مجھے رشین بولتا دیکھ کر اسے خوشی ہوئی، اس نے بتایا "سرخ لائن پر دو ٹرینیں چلتی ہیں، اگلا سٹیشن گانجلک، دوسرا ناریمان ناریمانوف، وہاں سے ایک لائن باک مل نامی سٹیشن کی طرف جاتی ہے، ناریمان ناریمانوف سے اگلا سٹیشن اولدوز، پھر مشہدی عزیز بیکوف، پھر کارا کارائف آئے گا"۔
میرے چہرے پر تفکرکے آثار نمودار ہوئے تو دونوں ماں بیٹی مسکرائیں اور لڑکی نے بتایا "پریشان مت ہو، یہ ٹرین کاراکارائف جارہی ہے"، میں شکریہ ادا کیا اور خاموش ہو کر سفر جاری رکھا، گانجلک سٹیشن پر بھی رش کم نہ ہوا اور کھڑے ہی رہنا پڑا، ٹرین چلی تو اس خاتون نے مجھ سے سوالیہ انداز میں پوچھا "مسلم؟"، میں اثبات میں سر ہلایا، پھر وہ پوچھتی "شیعہ؟" میں جواب دیا "سُنی، مولا علی اور اہل بیت سے بہت محبت کرتا ہوں "، اب اس کے چہرے پر اطمینان نظر آیا، پوچھتی "کنٹری؟"، پاکستان کا نام سنتے ہی ان دونوں نے میرے ہاتھ تھام کر چومے، یہ منظر میرے لئے عجیب تھا، مجھے شرمساری ہو رہی تھی، بیرون ملک پاکستانیوں کی اتنی عزت؟
میں سوچ میں غلطاں کہ یہ ہو کیا رہا ہے، وہ خاتون بولی "ہم کو بھی کاراکارائف سٹیشن پر اترنا ہے"، باقی سفر کبھی خاموش اور کبھی باتیں کرتے گزرا، اس دوران میں نوٹ کیا کہ وہ دونوں ماں بیٹی بڑی عقیدت سے زیر لب آہستہ آہستہ "حسین، حسین" کا ورد کر رہی تھیں، قریب کھڑے ہونے کی وجہ سے میرے کانوں نے سن لیا، یہ منظر دیکھنے لائق تھا، پاکستان میں شیعہ حضرات کو دیکھا، ان کی محافل میں بھی شرکت کی، لیکن حسین سے منسوب جو عقیدت و محبت ان دونوں ماں بیٹی میں نظر آئی، وہ آج تک نہ دیکھی تھی، پاکستان میں شیعہ حضرات حسین کا نام لیتے ہی ماتمی کیفیت سے دوچار ہو کر بنو امیہ و یزید کو گالیاں دینے لگتے ہیں جبکہ یہاں یہ دونوں ایک ناقابل بیان عشق کی کیفیت میں "حسین، حسین" کا ورد کرکے اپنے قلبی لگاؤ کا اظہار کر ہی تھیں۔
سپیکر پر کاراکارائف سٹیشن کی اناؤنسمنٹ ہوئی تو خاتون نے میری طرف نگاہ کرکے مجھے تیار رہنے کا اشارہ کیا، اسٹیشن پر اتر کر خاتون نے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا، برقی سیڑھیوں سے اوپر سڑک پر آئے، یہ علاقہ بھی اپنی مثال آپ تھا، چوڑی سڑکیں، بلند و بالا عمارتیں، صاف ستھرے چوڑے فٹ پاتھ، مجھے ان کے پیچھے چلنا مناسب نہ لگ رہا تھا، وہ خاتون بھی شائد سمجھ چکی تھی، رفتار کم کرکے برابر قدم بڑھاتی ہوئی پوچھتی "کہاں جانا ہے؟"، میں اسے موبائل پر لوکیشن دکھائی، وہ بولی "نارڈ ہوٹل، یہاں سے بالکل قریب ہے، دو منٹ کی واک ہے"، اس کی بیٹی نے ماں سے آذری زبان میں کچھ کہا، جس پر وہ خاتون بولی "آؤ، پہلے تم کو ڈراپ کر دیتے ہیں "، میں معذرت کی "آپ کو تکلیف ہوگی"، وہ خاتون بولی "پاکستان ہمارے لئے بہت محترم ہے"، اس عزت افزائی پر شکریہ کیلئے میرے پاس الفاظ نہ تھے۔
میں خاموش چلتا رہا جبکہ وہ دونوں ماں بیٹی مسلسل زیرلب "حسین، حسین" کا ورد کر رہی تھیں، چلتے چلتے اس نے دائیں ہاتھ سڑک پر مڑنے کا اشارہ کیا، یہاں بھی دونوں اطراف بلند و بالا عمارتیں تھیں، ہم فٹ پاتھ پر چلتے سڑک کے آخر تک گئے، وہاں سے دائیں ہاتھ مڑے، چلتے ہوئے آخر تک پہنچے اور وہاں سے پھر دائیں ہاتھ مڑے، چند قدم چلنے کے بعد خاتون نے دائیں ہاتھ ایک بڑی عمارت کی طرف اشارہ کیا، اس طرف دیکھا تو نارڈ ہوٹل کا بڑا نیون سائن جگمگاتا نظر آیا، ان دونوں کا شکریہ ادا کرکے میں ہوٹل کی لابی سے گزرتا، لفٹ میں سوار ہو کر تیسرے فلور پر پہنچا، دیواروں پر نصب مختلف دفاتر کی تختیاں دیکھتا شکیب کے آفس پہنچ گیا۔