Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Aatish Kada Baku (4)

Aatish Kada Baku (4)

آتش کدہ باکو (4)

ہم جیسے ہی قلعہ نما دروازے سے گزرے، مجھے ایک لمحے کو لگا شاید ہم کسی پرانی فلم کے سیٹ پر آ گئے ہیں جہاں ابھی کوئی شہزادی قلعے کی فصیل پر آ کر اعلان کرے گی: "اوہ، پردیسیو! خوش آمدید"۔

دائیں طرف ایک دس فٹ اونچی دیوار تھی جو ایسے مڑ رہی تھی جیسے راہداری کو کہہ رہی ہو: "ادھر سے آؤ، چکر لگاؤ، سب کچھ دکھاؤں گی"۔

سامنے ایک وسیع صحن پھیلا ہوا تھا، اتنا کشادہ کہ اگر کوئی وہاں یوگا کیمپ لگا لے تو بھی جگہ بچ جائے۔ صحن کے آخری سرے پر گول دائرے میں کچھ چھوٹے چھوٹے درخت ایسے لگے تھے جیسے وہ پکنک منانے آئے ہوں اور اردگرد بنچ ایسے جیسے بزرگ رشتہ دار ان پر بیٹھ کر درختوں کے بچپنے کو دیکھ رہے ہوں۔

بائیں طرف تعمیر شدہ رقبے پر دکانوں کی قطار تھی، جو بالکل ایسے لگ رہی تھی جیسے "آتش گاہ شاپنگ پلازہ" کا سادہ لیکن روحانی ورژن۔ پہلی دکان میں داخل ہوتے ہی آنکھوں نے ایک لمحے کو آنکھیں موند لیں، وہ سب کچھ چمک رہا تھا۔

تانبے اور سیرامک کی پلیٹیں جن پر آتش گاہ کی تصاویر کندہ تھیں، یوں لگ رہا تھا جیسے ہر پلیٹ فخر سے کہہ رہی ہو: "دیکھو بھئی، میں صرف کھانے کے لیے نہیں، دیکھنے کے لیے بھی بنی ہوں"۔

سویونیئرز بھی تھے، وہ چھوٹے چھوٹے تحفے جو یادگار سے زیادہ "واپس جا کر سب کو جلانے" کے لیے خریدے جاتے ہیں۔

پھر دوسری دکان میں قدم رکھا اور بس، جیسے وقت رک گیا ہو!

سامنے ایک بڑی میز اور اس کے گرد براجمان کچھ فنکارائیں، بالکل کسی پینٹنگ کے اندر کی تصویر جیسی۔

ایک آنٹی سامنے بیٹھی تھیں جن کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ فنکارہ کم، پرنسپل زیادہ ہیں۔ لیکن ان کی نگرانی میں جو کچھ ہو رہا تھا، وہ کمال تھا!

دائیں طرف رشین لڑکی، جو نہ صرف بائیں ہاتھ سے برش چلا رہی تھی بلکہ اپنے سلیقے سے بالوں میں ایک اضافی برش بھی اڑس رکھا تھا۔ ایک برش سے پینٹنگ اور دوسرا فیشن، یہ صرف فنکار ہی کر سکتے ہیں یا پھر وہ لڑکیاں جن کی سیلفی کے لیے بال ہر زاویے سے درست ہونے ضروری ہوں!

لمبے، گھنے، سیاہ بال جیسے وہ خود "پینٹنگ" کا موضوع ہو۔ وہ اس قدر مگن تھی جیسے "مونا لیزا" خود پلیٹ سے جھانک رہی ہو اور کہہ رہی ہو "چل بی بی، اچھا بنا"۔

پاس بیٹھی آذری لڑکی بھی پوری فنکاری میں مشغول تھی، ایک چپ، سو فنکاریاں۔ دکان کے اندر اتنا سکون تھا جیسے آرٹ گیلری میں نہ کوئی شور ہو، نہ کوئی سیل پر زور، بس رنگ، برش اور کچھ خاموشی جو خود بولتی تھی۔

اس لمحے مجھے اندازہ ہوا: فن اور ثقافت کبھی چلا کر نہیں بولتے، بس خوبصورتی سے نظر آتے ہیں، کبھی پلیٹ پر، کبھی کسی لڑکی کے بالوں میں اڑے برش پر۔۔

بلاشبہ وہ رنگوں کی جادوگرنی تھی، برش کو یوں رنگ میں ڈبوتی جیسے کوئی چائے میں بسکٹ ڈبو کر صحیح نرم ہونے کا انتظار کرتا ہے۔ پھر کاغذ پر برش پھیر کر رنگ کی مقدار چیک کرتی، بالکل ایسے جیسے امیاں سالن چکھ کر نمک پورا ہے یا نہیں جانچتی ہیں۔ اگر رنگ کم ہوتا، تو برش میں مزید رنگ بھر کر ایسے اعتماد سے واپس آتی جیسے کوئی خاتون سیل میں آخری سوٹ ہاتھ آجانے کے بعد فاتحانہ انداز میں پلٹے۔ اگر رنگ زیادہ ہوتا، تو برش کو ذرا سا پانی میں ڈبونے کا عمل کچھ ایسا نازک ہوتا کہ لگتا تھا جیسے بلی کے بچے کو نہلا رہی ہو اور پھر دوبارہ کاغذ پر چیک کرنا، جیسے کوئی چائے کی پتی چائے میں دوبارہ ڈال کر رنگ چیک کر رہا ہو کہ "اب آئی بات مزے کی"۔

جب وہ مطلوبہ رنگ پا لیتی تو پلیٹ کو ایسے سجانے لگتی جیسے شادی کی پلیٹ ہو اور مہمانِ خصوصی کو متاثر کرنا مقصود ہو۔ اتنی لگن، اتنی محویت، کہ میں وہیں کھڑا کا کھڑا رہ گیا، نہ پلک جھپکی، نہ قدم ہلا، جیسے کسی نے ریموٹ سے "پاز" کا بٹن دبا دیا ہو۔

پھر پیچھے سے کچھ لوگ آئے تو روزا نے مجھے ایسے انتباہ دیا جیسے کنڈیکٹر بس اسٹاپ پر زور سے بولے "اوئے پیچھے والے، تھوڑا آگے ہو جاؤ"۔ میں بھی فوراً راستہ چھوڑا اور درمیان میں ہو کر اس رشین فنکارہ کے فن کا لائیو مظاہرہ دیکھنے لگا، بالکل مفت اور فرنٹ رو سیٹ کے ساتھ!

دو منٹ بعد دل نے کہا: "بھئی اتنا زبردست آرٹ صرف آنکھوں میں قید کرنا ناانصافی ہے"۔ میں نے ہمت کرکے رشین زبان میں مخاطب کیا (یا یوں کہہ لیں دخل در معقولات کیا)

"آرٹ کے ساتھ اتنی لائیو محبت، پہلی بار دیکھی ہے! جیسے کسی تسبیح میں محبت سے موتی پروئے جا رہے ہوں۔ اگر اجازت ہو تو ان لمحات کو کیمرے میں قید کرنا چاہتا ہوں"۔

میری یہ تعریف سن کر وہ زیرِ لب مسکرائی اور بولی: "تی سموزش، پژالوستا! " یعنی "تم کر سکتے ہو، پلیز"۔

گویا گوگل ٹرانسلیٹ بھی عش عش کر اٹھے۔۔

میں نے موبائل نکالا اور جیسے ہی ریکارڈنگ آن کی، میرے اندر کا فلم ڈائریکٹر جاگ گیا، زاویے دیکھے، فریم سیٹ کیا اور "ریکارڈ" کا بٹن دبایا۔ اس کے فن کی رنگینی میں کچھ ایسا کھویا کہ میرے منہ سے بےساختہ نکلا، "کراسیوی! " یعنی "خوبصورت"۔۔

یہ لفظ کچھ ایسا اثر کر گیا جیسے مصورہ کے دل پر گلاب رکھ دیا ہو۔ وہ مسکرائی، ایسی مسکراہٹ جیسے کسی بچے کو اچانک چاکلیٹ مل جائے۔ سر کو حرکت دیے بغیر، بس بڑی بڑی کالی بھوری آنکھوں سے میری طرف یوں دیکھا جیسے کہہ رہی ہو: "تم ذرا دل کے اچھے لگتے ہو"۔

پھر نظریں جھکا کر واپس برش چلانے لگی، لیکن وہ لمحہ میرے لیے گویا وقت کا فریم ہوگیا۔ میں نے موبائل بند کیا، جیب میں ڈالا، لیکن قدم جیسے جیب میں ہی رہ گئے۔

دل نے کہا، "یار یہ پینٹنگ تو دل چوری کر رہی ہے، کچھ کرنا پڑے گا"۔

تو میں نے فنکارانہ چالاکی سے پوچھا: "کیا میں یہ پینٹنگ خرید سکتا ہوں؟"

وہ اب بھی رنگوں کی دنیا میں تھی، لیکن سوال سن کر ایسے جواب دیا جیسے آرٹسٹ کم، سیلز پرسن زیادہ ہو: "جی ضرور"۔۔

میں نے مزید تحقیقاتی انداز اپنایا: "اس کی قیمت؟"

اس بار وہ تھوڑا سنجیدہ ہوگئی، برش روک کر میری طرف متوجہ ہوئی: "یہ ایک کسٹمر کے لیے بنا رہی ہوں، آج ڈیلیور کرنی ہے"۔

لیکن میں بھی پاکستان سے آیا ہوا ایک جذباتی خریدار تھا، میں نے چالاکی سے ترپ کا پتہ پھینکا:

"آپ اسی جیسی ایک اور بنا دیں، میں پاکستان سے آیا ہوں"۔

یہ جملہ کچھ ایسا اثر رکھتا تھا جیسے مسافر کو دیسی کھانے کی خوشبو آ جائے۔ وہ فوراً کھڑی ہوگئی، مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور بولی:

"تھوڑا کام باقی ہے، ایک گھنٹے میں تیار ہو جائے گی، لیکن دو گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں۔ انتظار کر سکو گے؟"

اب بتائیں، ایسا فن، ایسی بات چیت اور اتنی شرافت، بندہ کیسے نہ کہے "نو پرابلم"۔

میں نے کہا: "آپ تیار کریں، بس قیمت بتا دیں"۔

تو وہ مسکرائی جیسے دکان پر "عید اسپیشل آفر" لگی ہو: "پاکستانی کے لیے آدھا ڈسکاؤنٹ، سو منات کی پینٹنگ آپ کو صرف پچاس میں"۔

یہ سن کر دل نے کہا "ایہو گل تے بن گئی اے! "

میں نے جھٹ جیب سے پرس نکالا، پچاس منات کا نوٹ ایسے پیش کیا جیسے کوئی انعام دے رہا ہوں۔

وہ بھی پوری پروفیشنل تھی، نوٹ وصول کیا، میز سے گھوم کر کیش کاؤنٹر گئی، رسید بنا کر مجھے تھمائی اور وہ لمحہ بھی میرے دل کی آرٹ گیلری میں فریم ہوگیا۔

پھر ہم باہر نکلے اور تیسری دکان میں داخل ہوئے، مگر سچ پوچھیں تو دل وہیں، اسی رنگوں کی دنیا میں رہ گیا تھا۔۔ جہاں "کراسیوی" نہ صرف رنگوں کے لیے تھا، بلکہ لمحوں، باتوں اور ملاقاتوں کے لیے بھی۔۔

Check Also

Mushtarka Khandan Aur Jadeed Samaj

By Javed Ayaz Khan