Aatish Kada Baku (3)
آتش کدہ باکو (3)

بس اب شہر کی گلیوں سے نکل کر مضافاتی علاقوں کی سیر پر نکل پڑی تھی، کھڑکی کے باہر دائیں بائیں کھیت تھے، کہیں سبز لہراتی فصلیں، کہیں گائے و بکریاں چرتی ہوئیں، قدرتی مناظر کی بھرمار جنہیں دیکھ کر انسان کی طبیعت شاعرانہ ہو جاتی ہے اور دل کرتا ہے کہ پیچھے کسی دوست کو فون کرکے کہے:
"یار، اگر تم ساتھ ہوتے تو یہ منظر دُگنا حسین ہو جاتا اور گناہ آدھے رہ جاتے"۔
اور کہیں وہ مشینیں نظر آئیں جو زمین کو یوں چوس رہی تھیں جیسے بچہ سٹرا سے روح افزا نکال رہا ہو۔
میں نے حیرت سے پوچھا "یہ کیا منظر ہے، کوئی خلائی مشق چل رہی ہے کیا؟"
روزا نے وضاحت کی "یہ تیل اور گیس نکالنے والے کنویں ہیں اور یہ علاقہ آذربائیجان کی توانائی کی شہ رگ ہے۔ سب سے پہلے گیس بھی اسی علاقے سے دریافت ہوئی تھی"۔
میں نے آنکھیں پھیلائیں، کچھ حیرت سے، کچھ یہ سوچ کر کہ اگر پاکستان میں بھی کسی گاؤں سے گیس نکلتی تو وہاں کے بچے لندن میں پڑھ رہے ہوتے!
روزا نے مزید بتایا "یہاں لوگ اپنی گھریلو ضروریات کی گیس انہی کنوؤں سے پوری کرتے ہیں اور حکومت ہر شہری کا خیال رکھتی ہے اس لیے لوگ حکومت سے خوش ہیں"۔
میں نے دل میں سوچا، "کیا بات ہے بھائی، یہاں تو عوام صرف خوش شکل نہیں، بلکہ خوش مزاج اور خوشحال بھی ہے"۔
ایسے ہی تو نہیں کہ ہر دوسرا بندہ مسکرا رہا ہوتا ہے، جیسے ابھی ابھی ٹی وی شو میں انعام جیت کر آیا ہو۔
یہ بات اب تک میں نوٹ کر چکا تھا، آذربائیجان کے شہری ہر لحاظ سے پُرسکون، مطمئن اور متوازن زندگی گزار رہے تھے۔
ترقی کا جو پیمانہ ہمارے ہاں صرف گراف اور تقاریر میں رہتا ہے، وہ یہاں سچ مچ زمین پر نظر آ رہا تھا، کرنسی مضبوط، اشیاء سستی، تعلیم اور علاج مفت اور رہائش کے لیے کسی بھی "بیلنس ٹرانسفر آفر" کی ضرورت نہیں!
میں کھڑکی سے باہر جھانک کر ایک خوش اخلاق کسان کو ہاتھ ہلاتے ہوئے دل میں بولا: "یار، یہ لوگ تو ایسے مطمئن ہیں جیسے انہیں صبح شام نانی (آذربائیجانی روٹی) کے ساتھ دعا بھی ملتی ہو"۔
روزا نے دیکھا کہ میں کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے خاموش ہوں تو نرمی سے بولی۔
"کیا سوچ رہے ہو؟"
میں نے ہلکی مسکراہٹ سے جواب دیا۔
"یہ سوچ رہا ہوں کہ یہاں کے لوگ رنگت میں گورے ہیں اور خوش بھی، بندہ رشک کرے تو کس پر کرے، ہاں اگر کبھی پاکستان میں بھی تیل نکلا، تو ہم اسے بوتلوں میں بھر کر مہمانوں کو تحفے میں دینا شروع کر دیں گے، ساتھ میں لکھا ہوگا: "اصلی دیسی تیل، دل کو لگے اور بجٹ کو بچائے"۔
روزا ہنس پڑی اور بولی "تم سچ کہہ رہے ہو، آذربائیجان میں زندگی نسبتاً آسان ہے، میرے اپنے شہر سینٹ پیٹرز برگ کا حال تو مت پوچھو، بہت مہنگا ہو چکا ہے اور اوپر سے چھ مہینے برفباری۔۔ بندہ باہر نکلے تو اپنے جوتے نہیں، صرف سانس ڈھونڈتا رہتا ہے"۔
میں نے فوراً کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا "اللہ بچائے! سیمی پلاٹنسک کی برفباری نے تو میرے ہنسنے کے عضلات بھی منجمد کر دیے تھے، ڈر ہی لگا رہتا تھا کہ زور سے سانس لو تو ناک سے سانس لیتے لیتے دماغ تک برف پہنچ جائے گی"۔
روزا قہقہہ لگا کر بولی "آذربائیجان میں بھی برفباری ہوتی ہے، لیکن زیادہ تر شمالی علاقوں میں، شداخ جیسے مقامات پر، جہاں بادل گھروں کی بالکونیوں سے اندر آ کر ٹی وی کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں"۔
میں حیرت سے بولا "اچھا! یعنی وہاں بادل بھی کرایہ نہیں دیتے لیکن مہمان بنے رہتے ہیں"۔
روزا نے مسکرا کر کہا "لیکن باکو مختلف ہے۔ یہاں سال کے بارہ مہینے موسم تقریباً خوشگوار ہوتا ہے۔ جولائی اور اگست میں درجہ حرارت تھوڑا سا بڑھتا ہے، لیکن 30 ڈگری سے اوپر نہیں جاتا۔ تب یہاں کے لوگ سمندر کی طرف ایسے دوڑتے ہیں جیسے عیدی کی تقسیم ہو رہی ہو"۔
"واہ بھئی" میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا "ہم تو 30 ڈگری پر اے سی کو سلام کرکے پنکھے کے نیچے لیٹ جاتے ہیں"۔
روزا نے اپنی ذاتی کہانی سنائی تو میں واقعی متاثر ہوا۔
"میری خالہ باکو میں اکیلی رہتی ہیں، ان کی کریانہ شاپ ہے، میں ان کے پاس آ جاتی ہوں، ہاتھ بٹاتی ہوں اور خالہ کی مرضی سے کبھی کبھار ماڈلنگ بھی کر لیتی ہوں"۔
میں نے فوراً شرارتی انداز میں کہا "ماشاءاللہ! خالہ نہ ہوئیں، ماڈلنگ ایجنسی ہوگئیں"۔
روزا نے ہنستے ہوئے آنکھیں گھمائیں "باکو میں رشین لڑکیاں کام کی تلاش میں آتی ہیں، نوے دن کا ویزہ ہوتا ہے، کام کرتی ہیں، پیسے جمع کرتی ہیں اور پھر ویک اینڈ پر واپس چلی جاتی ہیں، تاکہ نہ کام متاثر ہو اور نہ کمائی"۔
میں دل ہی دل میں سوچنے لگا: "یہ ہوتی ہے زندگی، کام بھی، کمائی بھی اور ہر ویک اینڈ پر گھر کی روٹی بھی"۔
پھر ہنستے ہوئے روزا سے بولا "یہاں کی لڑکیاں باقاعدہ "پروفیشنل پنڈولم" بنی ہوئی ہیں، کام باکو، چھٹیاں گھر"۔
روزا ہنس کر بولی "بس یہ سمجھ لو، باکو ورکشاپ ہے اور باقی روس آرام گاہ"۔
بس جیسے ہی سرخانی پولیس اسٹیشن کے سامنے رکی، ڈرائیور نے ٹی وی اینکر جیسا اعلان کیا: "خواتین و حضرات! آپ کا سفر بخیر ختم ہوا، اب سب نیچے اتریں اور اپنی اپنی منزلیں ڈھونڈیں"۔
میں نیچے اترا، فوراً ایک انگڑائی لی، اگر کہیں کوئی جم ٹرینر دیکھ لیتا تو مجھے فری ممبرشپ دے دیتا! سڑک آگے گاؤں کی طرف جا رہی تھی اور دائیں طرف بڑی تمکنت سے پولیس اسٹیشن کھڑا تھا، جیسے "قانون" خود اپنی چٹھی لیکر باہر نکلا ہو۔
بائیں جانب ایک کریانہ شاپ تھی، وہی روایتی انداز، باہر آویزاں آلو، پیچھے چھپے پیاز اور اندر بیٹھا دکان دار جو دکانداری کم اور گپ زیادہ کرتا ہو۔ ان دونوں معزز اداروں، یعنی پولیس اسٹیشن اور کریانہ شاپ، کے بیچ ایک چوڑی سی گلی تھی، جو دیکھنے میں یوں لگ رہی تھی جیسے دونوں کو جوڑنے کے لیے قدرت نے کوئی "نیوٹرل زون" رکھا ہو۔
روزا نے اس گلی کی طرف اشارہ کیا، اس کے اشارے میں ایسا اعتماد تھا جیسے وہ سرخانی کی میئر ہو! ہم گلی میں داخل ہوئے اور چند ہی قدموں بعد ریلوے لائن نمودار ہوئی۔ دائیں جانب نظر ڈالی تو تھوڑا آگے بائیں طرف سرخانی کا ریلوے اسٹیشن نظر آیا، جہاں ایک مال گاڑی کھڑی تھی، شاید وہ بھی ہماری طرح سفر کی تھکن سے آرام کر رہی تھی۔
ہم آگے بڑھے، چند قدموں بعد پکی سڑک نے ہمارا استقبال کیا، روزا نے جی پی ایس کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے بائیں مڑنے کا اشارہ کیا۔
ایک فرلانگ سے بھی کم فاصلے پر ایک قلعہ نما عمارت نظر آئی، یہ تھی آتش گاہ، گیٹ اتنے شاندار تھے کہ لگتا تھا ابھی کوئی تاریخ خود چلتی ہوئی دروازہ کھول کر باہر آ جائے گی!
ہم نے رخ اس طرف کر لیا، قدموں میں تازگی، دل میں تجسس اور چہروں پر وہی سفری مسکراہٹ، جو صرف نئی منزل دیکھنے والوں کے حصے میں آتی ہے۔
جیسے ہی قلعہ نما دروازے سے گزرے، مجھے ایک لمحے کو لگا شاید ہم کسی پرانی فلم کے سیٹ پر آ گئے ہیں جہاں ابھی کوئی شہزادی قلعے کی فصیل پر آ کر اعلان کرے گی: "اوہ، پردیسیو! خوش آمدید"۔