Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Aatish Kada Baku (2)

Aatish Kada Baku (2)

آتش کدہ باکو (2)

ہم بس اڈے کی طرف بڑھے، ہر طرف چھان مارا مگر ہماری بس کا کچھ اتا پتا نہ تھا، شائد چھٹی پر گئی ہوئی تھی، ایک اور بس کھڑی تھی، بالکل تیار، مگر اندر ایسا سنّاٹا جیسے دلہن تیار بیٹھی ہو اور دولہا چپل لینے گیا ہو، ابھی لوٹا نہ ہو!

غیبی مدد کی امید میں ایک کھڑی بس کے ڈرائیور سے میں نے پوچھا، "سرخانی کی بس کب آئے گی؟" تو وہ بجائے جواب دینے کے، سیدھا پوچھ بیٹھا، "کنٹری؟"

میں نے فوراً سینہ چوڑا کرکے، گردن تھوڑی اکڑا کر، جیسے کسی مقابلے میں قومی ترانہ شروع ہونے لگا ہو، کہا: "پاکستان"۔

بس پھر کیا تھا، وہ ڈرائیور تو جیسے جذباتی طوفان میں بہہ گیا، اپنی سیٹ سے اٹھا، بھاگ کر آیا اور مجھے ایسا گلے لگایا جیسے میں اُس کے بچپن کا بچھڑا ہوا بھائی ہوں جو اچانک ترکش ڈرامے کے آخری سین میں مل گیا ہو! اور پھر، بائیں رخسار پر ایک بوسہ، دائیں رخسار پر دوسرا اور زور سے بولا، "پاکستان آذربائیجان برادر برادر"۔

میں نے بھی پوری چستی سے جواب دیا، "پاکستان آذربائیجان برادر برادر! "، آواز میں اتنا ولولہ تھا کہ پاس کھڑی روزا بھی ہنسی سے دہری ہوگئی اور قریب کھڑی آنٹیاں بھی سمجھی ہوں گی کہ شاید کسی بین الاقوامی معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں۔

پھر وہ پوچھنے لگا، "کچھ کھانے پینے کا انتظام کریں؟" میں نے ہنس کر شکریہ ادا کیا اور دوبارہ پوچھا، "سرخانی کی بس کب آئے گی؟"

وہ بولا، "بس آدھے گھنٹے بعد آئے گی، مگر تم ایسا کرو میری بس میں بیٹھ جاؤ، اولمپک فٹبال سٹیڈیم پہ اُتر کر بس بدل لینا، وقت بچے گا"۔

میں نے فوراً روزا کی طرف دیکھا، "وزیراعظم کی منظوری درکار ہے"۔ روزا نے بھی اپنی کابینہ یعنی دونوں لڑکیوں سے مشاورت کی اور سب نے سر ہلا کر متبادل منصوبے کو منظور کر لیا۔

روزا نے دونوں کو "دس ودانیا" کہا اور اپنا جھولتا ہوا پرس سنبھالتی ایوارڈ وصول کرنے کے انداز میں آگے بڑھی، میں نے اخلاقاً سائیڈ پہ ہو کر راستہ دیا اور بس میں چڑھنے کے لیے تیار ہوا، اتنے میں جمیلہ پیچھے سے آواز دے بیٹھی۔

"سرخانی میں گھریلو انگوروں سے بنی تازہ بیئر ضرور چکھنا، بہت خاص ذائقہ ہوتا ہے"۔

میں نے جواباً "دس ودانیا" کہا، تو لیلیٰ فوراً بولی۔

"واپسی پر ٹرکش ریسٹورنٹ سے کھانا ضرور کھانا، یہاں کا ذائقہ لاجواب ہے، دل چاہے تو انگلیاں بھی ساتھ کھا جاؤ"۔

میں نے دل میں کہا، "بھئی، دنیا کی سیاست سمجھ نہیں آتی، مگر روایتی مہمان نوازی کا یہ، وارم آپ دیکھ کر لگتا ہے انسانیت ابھی بھی زندہ ہے، بلکہ خوشبو دار، خوش ذائقہ اور کافی جذباتی بھی"۔

بس کے اندر قدم رنجہ فرماتے ہی میں نے فوراً اپنے اندر کے ذمہ دار شہری کو جگایا اور خودکار مشین پر کارڈ پنچ کرنے لگا یعنی مکمل قانون پسند انداز، جیسا بندہ پہلی بار ایرپورٹ پر چیک ان کرا رہا ہو۔

لیکن! ڈرائیور نے کبڈی پلیئر کی مانند ہاتھ اٹھا کر میرا حملہ روکا اور بولا، "پاکستان آذربائیجان برادر برادر"۔

میں مسکرا دیا، دل میں کہا، "اب تو مجھے لگتا ہے ویزا بھی نہیں لگے گا، صرف یہ نعرہ ہی کافی ہوگا سرحد پار جانے کے لئے"۔

میں نے نرمی سے کارڈ والا ہاتھ دوبارہ مشین کی طرف بڑھایا، تو اس نے میرا ہاتھ تھام کر سینے پر رکھ لیا، ایک دم فلمی سین، جیسے "دل والے دلہنیا لے جائیں گے" کا کوئی ترکش ورژن چل رہا ہو۔ پھر سینے پر ہاتھ رکھ کر بولا، "پاکستان آذر بائیجان برادر برادر" اور دوسرے ہاتھ سے سیٹ کی طرف اشارہ کیا، مطلب یہ کہ "جناب، بیٹھ جاؤ، یہاں کرایہ دل سے وصول ہو چکا ہے"۔

اب میں کیا کرتا؟ قومی محبت کا قرض چکانا ضروری تھا، اس لیے چپ چاپ جا کر بیٹھ گیا، ورنہ کہیں اگلی بار وہ مجھے کندھوں پر اٹھا کر جشن نہ شروع کر دے!

روزا بی بی بس کے درمیان میں کھڑکی کے ساتھ بادشاہت والی سیٹ پر براجمان تھی، میں نے بھی ادباً اس کے سامنے والی سیٹ پر قبضہ جما لیا اور کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔

ابھی میں نظاروں میں کھویا ہوا تھا کہ روزا نے آواز دی، "ایش"

میں نے فوراً سر کو گھما کر دیکھا، وہ ہاتھ سے اشارہ کر رہی تھی کہ میرے ساتھ آ جاؤ، اس کی ساتھ والی سیٹ خالی تھی۔

میں نے بھی ہاتھ سے جواب دیا، "یہیں ٹھیک ہوں، یہاں ہوا زیادہ آ رہی ہے"۔

مگر وہ غصہ دکھاتے ہوئے بولی، "ابھی اور لوگ آئیں گے، پھر اٹھنا پڑے گا۔ بہتر ہے کہ ابھی سے آ کر بیٹھ جاؤ"۔

دل میں میں نے کہا، "ہائے! یہ نسوانی قیادت، پہلے پیار سے کہتی ہے، پھر حکمت سے قائل کرتی ہے اور آخر میں، حکم جاری کر دیتی ہے"۔

چپ چاپ، تابعدار بن کر میں اٹھا اور اس کے ساتھ والی سیٹ پر آ بیٹھا اور جیسے ہی بیٹھا، روزا نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ باہر دیکھنا شروع کر دیا، جیسے کہہ رہی ہو، "Mission Accomplished"۔

ابھی چند ہی مزید سواریاں چڑھی تھیں کہ ڈرائیور نے ایسا جھٹکا دیا، "میں وقت سے پہلے بھی وقت پر ہوں"۔

بس اسٹارٹ ہوئی اور اڈے سے نکل گئی، میرے دل میں آیا کہ کہیں کوئی خفیہ مقابلہ تو نہیں ہو رہا؟"بس ڈرائیور لیگ، جلدی چلاؤ، عزت کماؤ"۔

میں کھڑکی سے باہر جھانک رہا تھا، عمارتیں، سائن بورڈ اور کچھ ایسے لوگ جو شاید صبح کے ناشتے پر ابھی تک فیصلہ نہیں کر پائے تھے کہ سموسہ کھائیں یا خالی چائے سے کام چلائیں۔ دو اسٹاپ پر بس رکی، کچھ اور سواریاں چڑھیں اور پھر آیا ہمارا "ٹرننگ پوائنٹ": اولمپک فٹ بال بس اسٹاپ۔

ڈرائیور نے ہنکارا بھرا اور ہمیں اترنے کا اشارہ کیا، ساتھ ہی بولا۔

"وہ سامنے 185 نمبر بس کھڑی ہے، جلدی کرو"۔

اب یہ "جلدی کرو" ایسا تھا جیسے میوزیکل چیئر والے ٹی وی شو میں پانچ سیکنڈ میں سیٹ بدلنی ہو ورنہ انعام ہاتھ سے نکل جائے!

میں فوراً اٹھا، سائیڈ پر ہو کر روزا کو راستہ دیا، باکی کارڈ جیب سے نکالا، ڈرائیور کے پاس سے گزرتے ہوئے قانون پسندی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے مشین پر دو مرتبہ کارڈ پنچ کر دیا"۔ ڈرائیور نے بے بسی سے میری طرف دیکھا جیسے کہہ رہا ہو، "او بھائی، جذبہ ٹھیک ہے، پر اتنا بھی نہیں۔۔

میں نے اس کی طرف مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور باہر آ گیا۔

یہ علاقہ ہائی وے پر تھا، شہر سے ذرا باہر، ٹریفک کم مگر رفتار تیز، ایسا لگ رہا تھا جیسے گاڑیاں ورزش کے بعد دوڑ لگا رہی ہوں۔

ہماری مطلوبہ 185 نمبر بس سڑک کے دوسری طرف کھڑی تھی۔ روزا نے میری طرف دیکھا، میں نے بھی ہیرو والی فلمی سنجیدگی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور ہاتھ تھام کر دوڑ لگا دی۔

بس جیسے ہی ہلے ڈلے ہونے لگی، میں نے روزا کا ہاتھ چھوڑا، پہلے تیز تیز قدم بڑھائے، پھر صورت حال بھانپ کر تیزی دوڑتا ہوابس کے قریب پہنچا اور ایک ہاتھ سے بس کی باڈی پر پیار بھرا دھپ دھپ کیا، مطلب: "پیار سے رک جاؤ، کچھ اپنے بھی سوار ہونا چاہتے ہیں"۔

بس رکی، میں فوراً دروازے کی طرف لپکا اور بلند آواز میں ڈرائیور کو مخاطب کیا۔

"رکنا پلیز، ایک بندہ ابھی پیچھے ہانپ رہا ہے"۔

پیچھے مڑا تو روزا آ رہی تھی، سانس یوں پھولا ہوا تھا جیسے ابھی میراتھن سے فارغ ہوئی ہو اور فوراً اگلے راؤنڈ میں داخل ہو رہی ہو۔

بس کے رکتے ہی اس کے قدم سست پڑ گئے، جیسے اب اس کا جسم اور روح دونوں کہہ رہے ہوں، "شکر ہے، بچ گئے"۔

میں نے روزا کو بس میں چڑھایا، خود بھی سوار ہوا اور حسبِ روایت دو بار کارڈ پنچ کیا، اب یہ میری عادت بن گئی تھی، جیسے بچے ہر چیز دو بار چیک کرتے ہیں کہ کہیں ماں نہ ڈانٹے!

روزا ایک خالی سیٹ پر براجمان ہو چکی تھی، ہاتھ سے اشارہ کر رہی تھی، "ادھر آؤ"۔

میں بیٹھا تو وہ اب بھی سانس بحال کرنے کی جدوجہد میں تھی۔

میں نے مسکرا کر کہا "اب تو تمہاری فٹنس ٹیسٹ بھی مکمل ہوگئی، واپسی پر تمہیں "اولمپک بس اسٹاپ کی چیمپئن" کا خطاب دلواؤں گا"۔

Check Also

The Identity Code (2)

By Muhammad Saqib